معزز قارئین!۔ 25 جنوری کو اِسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چودھری نے وزیراعظم عمران خان کی 175غیر ملکی سیّاحوں ، تاجروں اور سفارتکاروں کے لئے پاکستان کے دروازے کھولنے کا اعلان کِیا۔ روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے مطابق ویزا پالیسی آزادانہ بنانے کے لئے اقدامات کے اہم نکات یہ ہیں ۔ ’’ 175 ممالک کیلئے ای ویزاکی سہولت میسر ہو گی۔ 50 ممالک کیلئے ویزا آن آرائیول کی سہولت حاصل ہو گی (پہلے یہ سہولت 24 ممالک کیلئے تھی)۔ ایاٹا سے منظور شدہ ٹور آپریٹرز کو پاکستان کیلئے سیاح گروپوں کو لانے کی اجازت ہو گی۔ کینیڈا اور برطانیہ کے پاسپورٹ رکھنے والے سکھ برادری کے ارکان یہ سہولت حاصل کر سکیں گے۔ بزنس ویزا کی سہولت 68 ممالک سے بڑھ کر 96 ممالک کر دی گئی (کاروباری دستاویزات درکار ہوں گی)۔ ورک ویزا، پاکستانی سفارتخانے سرمایہ کاری بورڈ کی سفارش پر یہ ویزے جاری کریں گے۔ فیملی وزٹ، 7 سے 10 دن میں 5 سال کیلئے ملٹی پل انٹری ویزا جاری ہو گا۔ پاکستان کے سفارتخانے پاکستانی نژاد غیر ملکیوں اور ان کے اہلخانہ کو 5 سال کی مدت اور ایک سال کے قیام کیلئے ملٹی پل انٹری ویزا جاری کر سکیں گے۔ سفارتی ویزا سفارتی و سرکاری ذمہ داری کی مدت تک ہو گا۔ تبلیغی ویزا کی مدت 45 دن ،مشنری ویزا کی مدت ایک سال،سٹوڈنٹ ویزاکی مدت 2 سال ہو گی۔ اوپن کنٹونمنٹس میں غیر ملکیوں کی آزادانہ نقل و حرکت ، بند کنٹونمنٹس کی ممنوعہ حیثیت برقرار رہے گی۔ پورے ضلع یا تحصیل کی بجائے پابندی والے علاقوں میں سائن بورڈز نصب کئے جائیں گے۔ بارڈر کراسنگ اوپن ہو گی/رکاوٹ نہیں ہو گی۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے پابندی نہیں ہو گی۔ ممنوعہ علاقوں کی نظرثانی شدہ فہرست۔ ویزا فیس کو بہتر بنایا جا رہا ہے‘‘۔ معزز قارئین!۔ پرسوں (26 جنوری کو ) مجھے 1981ء سے میرے دوست گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے گروپ ایڈیٹر برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف کو دوسری بار دورۂ گلاؔسگو کی دعوت دینے کے لئے مجھے اپنے ساتھ لے گئے اورکہا کہ ’’ سیّد صاحب ! مَیں پچھلے سال بھی اثر چوہان صاحب کو ساتھ لے کر آپ کو دورۂ گلاسگو کی دعوت دینے آیا تھا۔اب تو 24 نومبر 2018ء کو آپ کی صاحبزادی سیّدہ آمنہ شاہ کی شادی بھی (لندن واسی ) سیّد حسن علی شاہ گیلانی کے ساتھ ہوگئی ہے ، اب کیا ارادہ ہے ؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ برادرِ عزیز ! سیّد ارشاد احمد عارف !۔ مَیں اپریل میں اپنے بیٹوں سے ملنے کے لئے برطانیہ جا رہا ہُوں اُن دِنوں آپ بھی وہاں ہوں تو، میرا دورہ ’’دوآتشہ ‘‘ہو جائے گا‘‘ ۔ پھر اُنہو ںنے ’’ بابائے امن‘‘ کی دعوت قبول کرلی۔ سیّد ارشاد احمد عارف ، وزیراعظم عمران خان کی "Open Door Policy" پر خُوش تو تھے لیکن، کئی معاملات میں تشویش میں مبتلا تھے / ہیں ، جن کا اُنہوں نے اپنے 27 جنوری کے کالم ’’طلوع‘‘ میں ’’سوچ لیں‘‘ کے عنوان سے اظہار بھی کردِیا ہے ۔ سب سے بڑے دو مسئلے ہیں ۔ایک مسئلہ یہ کہ’’ جب تک مُلک میں شراب و شباب سے مستفید ہونے کی کُھلی چھٹی نہ ہو کوئی غیر ملکی سیّاح پاکستان کا رُخ کیوں کرے ؟ اُن کے خیال میں تو، قدرتی مناظر سے محظوظ ہونے کے شوقین سیّاح صرف شوق شراب اور ذوق شباب کی تسکین کے لئے کسی ملک اور علاقے کا دورہ کرتے ہیں ‘‘ اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ’’ اگر عہدِ حاضر کی ضرورتوں سے واقف اور قومی خدمت کے جذبے سے سرشار افراد پر مشتمل یہ ادارے ائیر پورٹ سے سیاحتی مقامات تک غیر ملکی اور ملکی باشندوں کی خدمت پر مامور ہُوں اور انتظامات کے ذمہ دار بھی تبھی یہ بیل منڈھے چڑھے گی‘‘۔ معزز قارئین! ۔ مَیں نے صدر جنرل ضیاء اُلحق (مرحوم) سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ ’’ جنابِ صدر !بظاہر ارضِ پاک میں شراب پر پابندی ہے لیکن، ہمارے یہاں شراب تیار ہوتی ہے ، سمگل ہو کرباہر سے آتی ہے ، پاکستان میں مختلف ملکوں کے سفیر بھی درآمد کرتے ہیں اور ہوٹلوں میں غیر مسلموں کو شراب فروخت بھی کی جاتی ہے ۔ میری تجویز ہے کہ، جس طرح سگریٹ کے "Packet" پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’ خبردار! تمباکو نوشی صحت کے لئے مُضر ہے ‘‘۔ اِسی طرح شراب کی بوتل پر لکھ دِیا جائے کہ ’’خبردار! ۔شراب نوشی مسلمانوں کے لئے گُناہ ہے؟‘‘۔ اِس پر جنرل صاحب نے گورنر پنجاب غلام جیلانی خان سے ٹیلی فون پر بات شروع کردِی اور بات ختم؟۔ وزیراعظم کی "Open Door Policy" پر روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ اور دوسرے قومی اخبارات کے "Editorials"میں خیر مقدم تو کِیا گیا لیکن ، بہت سے تحفظات کے ساتھ ؟۔ ’’ تحریک پاکستان کے دَوران سِکھوں نے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کردِیا تھا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغوا ء کر کے اُن کی عصمت دری کردِی تھی۔ سِکھ ریاستوں نابھہ ؔ ، پٹیالہؔ اور ضلع امرتسرؔ میں میرے خاندان کے بھی 26 افراد شہید ہوگئے تھے۔1984ء میں بھارت کی آنجہانی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے حکم پر ٹینک بردار بھارتی فوج نے امرتسر میں سِکھوں کے "Golden Temple"پر چڑھائی کر کے ہزاروں سِکھوں کو قتل کردِیا تھا ۔ کئی ہزار سِکھ امریکہ، کینیڈا ، برطانیہ اور دوسرے ملکوں میں آباد ہوگئے تھے ۔ سِکھ جہاں بھی ہیں وہ پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب کی لکیر مٹا کر ’’ سانجھا پنجاب/Greater Punjab‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں ۔ جب بھی سِکھوں کے جتھے یاتریوں کے رو پ میں پاکستان آتے ہیں تو، پاکستان کے کئی دانشور ، ادیب ، شاعر اور صحافی اُن سے بہنوئیوں اور دامادوں کا سا سلوک کرتے ہیں ۔ سابق صدر آصف زرداری اور نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کے دَور میں ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کے حامی پاکستانیوں کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ 30 جون کی شب دس بجے ایک چینل پر متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین صدیق اُلفاروق نے اینکر پرسن کوسے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’قطع نظر سرحدوں کے ’’ ہم اور سِکھ ایک قوم ہیں ‘‘ ۔اِس پر 2 جولائی 2017ء کو روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ مُسلم ، سِکھّ ۔ ایک قوم ‘‘ نظریۂ جہالت!‘‘ ۔ مَیں نے لِکھا تھا کہ ’’ کیا مسلمانوں اور سِکھوں کو ایک قوم سمجھنے والا کوئی بھی ’’Siddique -Ul- Farooq School of Thought‘‘ پاکستانی مسلمان کسی سِکھ کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کرسکتا ہے؟ ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں تو، اپنے کالموں میں کئی بار لکھ چکا ہُوں کہ ’’ سِکھ یاتریوں کی مہمان نوازی کرنے والے پاکستانی افسران اور اہلکار بھی اُن پر کڑی نظر رکھیں ( اُن کی تلاشی بھی لیں ) اور یہ جانچ پڑتال کرلیں کہ کسی سِکھ یاتری نے اپنی بغل میں کوئی داتری ؔ ( درانتی ) تو نہیں چُھپا رکھی ؟۔ ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے اپنے ایک سیاسی ماہِیا میں کہا کہ … جَمّ جَمّ ،سِکھ یاتری، ہووے! ایویں تُوں، وساہ نہ کرِیں! کِتے کچھّ وِچّ ، داتری ہووے! …O… آخر میں میری محترم وزیراعظم عمران خان سے گذارش ہے کہ ’’ آپ نے غیر ملکیوں کے لئے پاکستان کے دروازے تو کھول دئیے ہیں آپ کی مرضی؟ لیکن، مَیں آپ کی خدمت میں ایک مختصر سی گزارش کر رہا ہُوں کہ ’’ بھارت کے داراُلحکومت دِلّی کے جس علاقے میں بیرونی سفارت کاروں کے دفاتر اور رہائش گاہیں واقع ہیں اُسے ’’ چانکیہ پُوری‘‘ (چانکیہ کا دروازہ، ڈیوڑھی یا پھاٹک) کہا جاتا ہے۔کوٹلیہؔ / وِشنو گُپتاؔ المعروف چانکیہ ؔ( 375-350 قبل از مسیح) بھارت کے حکمران ’’چندر گپت موریا ‘‘ کا اتالیق ، فلاسفر، ماہرِ امورِ سیاست و معیشت تھا۔ امورِ سیاست پر اْس کی تصنیف ’’ ارتھ شاستر‘‘ (Arthashastra) میںحکمرانوں کو حکمرانی کے اصول بتائے گئے ہیں جِن میں ’’ وعدہ فراموشی اور مکرو فریب کا سبق بھی دِیا گیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اسلام آباد کے "Diplomatic Enclave" کا نام پیغمبرِ انقلابؐ کے پہلے سفیر حضرت علی مرتضی ؑ کے بھائی حضرت جعفر طیّار ؑ بِن ابی طالب کے نام پر ’’ بابِ جعفر طیار ؑ ‘‘ رکھ دیں جنہوں نے حبشہ ؔکے عیسائی بادشاہ نجاؔشی کے دربار میں بین اْلمذاہب ہم آہنگی پر لازوال تقریرکرتے ہْوئے حقیقی اسلام کا تعارف کرایا تھا۔