سندھ کے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ چاہیے تو یہ تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس سال میں دو بار بلا یا جاتا، صوبہ سندھ کے لیے مختص رقم بر وقت ان کے حوالے کی جاتی۔ مشاہد اللہ خاں کا خاں کا کہنا ہے کہ چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان پی آئی اے کے حادثے کے بعد استعفیٰ دے دیتے۔ ایک اور نون غُنہ سوشل میڈیا پہ چیخ چیخ کے کہہ رہا تھا کہ جب میاں شہباز شریف نے ارشاد فرما دیا تھا کہ مَیں بیمار ہوں تو چاہیے تو یہ تھا کہ ان کے تندرست ہونے کا انتظار کیا جاتا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی حکومت واویلا کر رہی ہے کہ چاہیے تو یہ تھاجب ملک میں لاک ڈاؤن تھا تو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ تمام ادارے بھی اس کا احترام کرتے۔ غرض یہ کہ کرونا کی وبا، 2020ء کے سالانہ بجٹ اور پٹرول کی مہنگائی کے بعد ملک بھر سے ’’چاہیے تو یہ تھا !!!، چاہیے تو یہ تھا !!!!!‘‘ کا راگ اپنے اپنے انداز میں الاپا جا رہا ہے۔ایسے میں ہمیںجناب جعفر بلوچ کا یہ شعر رہ رہ کے یاد آ رہا ہے: یادِ ماضی کے اوراق پر جا بجا اب یہ تحریر ہے چاہیے تو یہ تھا ، چاہیے تو یہ تھا ، چاہیے تو یہ تھا پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے ہر فرد کو وطنِ عزیز کا ہر ادارہ، ہر محکمہ چلانے کا اس کی موجود انتظامیہ سے زیادہ علم اور تجربہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر گھر میں ایک ماہر ڈاکٹر، ایک حاذق حکیم، ایک عظیم اکانومسٹ، ایک تجربہ کار ماہرِ تعلیم، ایک کائیاں سیاست دان،ایک گھاگ ماہرِ قانون، ایک کھیلا کھایا صحافی، ایک جید عالم اور ایک پہنچا ہوا عامل بابا موجود ہے،جو گھر بیٹھا میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر مسئلے، ہر موقعے اور ہر محکمے سے متعلق عوام الناس اور حکومت ِ وقت کو بلامعاوضہ، بلا مبالغہ اور بلا تکان نئے سے نئے اور انوکھے سے انوکھے مشوروں سے ہر لمحہ نوازے جا رہا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ سب دیکھ کے دل میں یہ احساس شدت سے جاگزیں ہو جاتا ہے کہ یارب ! جس قوم کے پاس اتنی دانش، اتنی ذہانت، خدمتِ خلق کا اس قدر شدید جذبہ ہو وہ اتنی عاجز و درماندہ کیسے ہو سکتی ہے؟ جب مزید غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں بہت محدود تعداد میں ایسے ہیں جن کی آرا اور مشوروں میں اخلاص ہے، وگرنہ بعض کے ہاں ذہنی افلاس اور بہت ساروں کے بیانات کے انگ انگ سے سابقہ حکومتی لٹیروں کی اندھی کانی محبت ہوتی ہے۔ ایسے میں حیرت بھی ہوتی کہ یہ لوگ اتنے مخلصانہ مشورے اگر اپنے محبوب حکمرانوں کو دے دیتے تو شاید اس سے لوگوں کی دنیا اور اُن کی اپنی عاقبت کے سنورنے کا کوئی امکان پیدا ہو جاتا۔ ایسے میں ہمیں اکبر الہٰ آبادی بھی بے طرح یاد آتے ہیں، جنہوں نے ساری عمر سرسید تحریک کا ناک میں دم کیے رکھا اور سرسید کے مرنے پر اعتراف کیا کہ: ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے ، کرنے والے میں پھر یہ بھی علم میں آتا ہے کہ یہاں ہر کسی کا ’’چاہیے تو یہ تھا‘‘ بھی صرف دوسروں کو سمجھانے کے لیے ہے، ہمیں خود اس پہ عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وگرنہ ہم اگر قومی ترقی و خوشحالی کے کسی مجموعی اور باہمی قسم کے فارمولے پہ متفق ہو جاتے تو چاہیے تو یہ بھی تھا کہ جب قائدِ اعظم نے دو ٹوک اعلان کیا تھا کہ اس ملک کا آئین چودہ سو سال قبل بن گیا تھا اور یہاں کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی تو بغیر کسی حیل و حجت کے ان دونوں کا نفاذ عمل میں آ جاتا۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ لیاقت علی خاں کے قاتلوں کو فوری طور پہ سزا دے کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس طرح کی ریشہ دوانیوں اور مفاداتی اموات کا خاتمہ کر دیا جاتا۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ مجیب الرحمن کو بھاری اکثریت حاصل ہو جانے کے بعد ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘ کا نعرہ لگانے کی بجائے اسے کھلے دل سے پورے ملک میں حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ جب روٹی کپڑے اور مکان کے وعدے پر قوم سے ووٹ لیے تھے تو ان کو یہ نعمتیں فراہم کرنے کی کوئی تو سنجیدہ کوشش کی ہوتی! چاہیے تو یہ بھی تھا کہ بھٹو کی معزولی یا موت کے بعد پارٹی میں شان دار جمہوری روایت قائم کرتے ہوئے پارٹی الیکشن کے ذریعے اگلے چیئرمین کا انتخاب عمل میں لایا جاتا۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ 1973ء کا آئین عوامی اور جمہوری زبان اُردو میں تحریر کروایا جاتا، نیز قومی زبان کے ساتھ پندرہ سال کا کھلواڑ کرنے کے بجائے اس کے فوری نفاذ کا اعلان کیا جاتا۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ جب ایوب خاں اور ضیا الحق اتنے ہی برے تھے تو ان کے لگائے ہوئے کسی بھی سیاسی پودے کو اس پاک سرزمین میں پنپنے کا موقع ہی نہ دیا جاتا۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ جب ایک بھائی وزیرِ اعظم تھا توسب سے بڑے صوبے کا وزیرِ اعلیٰ کسی اور پارٹی یا کم از کم کسی اور شہر یا کم از کم کسی اور خاندان ہی سے لینے کا حوصلہ پیدا کیا جاتا۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ جب کشکول توڑنے کا وعدہ کیا تھا اور بھولی بھالی عوام سے ’قرض اتارو، ملک سنوارو‘ کی مد میں اربوں، کھربوں اکٹھے کیے تھے تو اللہ کی عدالت میں جانے سے پہلے پہلے ان کا کچھ حساب ہی دے جاتے۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ باقی دنیا کی طرح حکومت میں آ جانے کے بعد یہاں کے تمام حکمران اخلاق یا آئین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ذاتی کاروبار کا سلسلہ بند کر دیتے۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ جب حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا اور محکموں/ اداروں کو گھر بیٹھے لوگوں کو تنخواہیں دینے کا اعلان کیا تھا، تو اس کو سیاسی اشو نہ بنایا جاتا۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ اس ملک کا کھربوں روپیہ لوٹنے والے مصیبت کی اس گھڑی میں ، اس غریب عوام کو امداد کے نام پہ ہی کچھ حصہ واپس کر دیتے، عوام عوام کا راگ الاپنے والے عوام میں نکل کے ان کی خدمت کا حق ادا کر تے یا کم از کم لیپ ٹاپ اور ٹیپ ٹاپ والے بنگلوں میں بیٹھ کے خالی خولی بیان بازی سے باز رہتے۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کرونا اور ٹڈی دَل جیسے خوف ناک عذابوں سے ڈر کر ہمارے علما اور قوم اجتماعی ’ عملی توبہ‘ ہی کا کچھ اہتمام کر لیتے!! چاہیے تو یہ بھی تھا کہ ان تہتر سالوں میں کسی نہ کسی بزرجمہر کو اس ملک میں یکساںنظامِ تعلیم نافذ کرنے کا خیال ہی آ جاتا۔ چاہیے تو یہ بھی تھا کہ ناجائز منافع کی خاطر ملک سے سستا پٹرول خرید کر بھارت اور افغانستان کو سمگل کر کے ملک میں تیل کی مصنوعی قلت پیدا کرنے اور حکومت کو قیمتیں بڑھانے پر مجبور کرنے والے مکروہ سرمایہ داروں کے لیے فوری پھانسیوں کا اہتمام کیا جاتا۔