وہ نوجوان خاصا پرجوش اور فکر مند تھا ۔اسکے چہرے کی تمتماہٹ بتا رہی تھی کہ اس نے کوئی بڑا معرکہ سر کرلیا ہے لیکن ساتھ ہی آنکھوں سے فکرمندی اور تشویش بھی جھلک رہی تھی ۔وہ کسی سے ملاقات کا منتظر تھاجو بہت ہی غیر معمولی اور اہم تھی۔ بلآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور وہ اس دھان پان سے ’’ہیوی ویٹ‘‘ کے سامنے بیٹھ گیا جس نے تاج برطانیہ اور ان کے کاسہ لیسوںکو وخت ڈال رکھا تھا ، نوجوان نے تیزی سے چند رسمی جملے کہے مختصر سی تمہید باندھی اورایک فائل سامنے کردی ، فائل میں لگی سمری اس نوجوان کی باتوں کی تصدیق کر رہی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے ۔وہ ایک سیاسی پارٹی کی شکست کا سرکاری پلان لے کر آیا تھا اور وہ دھان پان سا شخص اسی پارٹی کا سربراہ تھا ،یہ پلان ، یہ مخبری اس کے لئے بہت اہم تھی۔ سمری پڑھنے کے بعد اس شخص کو آنے والے نوجوان سرکاری افسر کو شاباش اور انعا م دینا چاہئے تھا، کچھ اور نہیں توپانچ چھ ’’سبز باغوں‘‘ کی ملکیت دینا کیا مشکل تھا، اس میں سوائے چھ انچی زبان ہلانے کے جاتا ہی کیا ہے۔ وہ کہہ دیتا کہ آنے والے وقت میں تمہاری منہ مانگی پوسٹنگ پکی ،ہمیں تمہارے جیسے ہی وفادار وں کی ضرورت ہے لیکن جو ہواوہ اس کے برعکس تھا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں تھا،قانون پسند قانون دان محمد علی جناح تھا ، قائد اعظم نے قدرت اللہ شہاب نامی اس نوجوان افسر سے کہا ’’بوائے!تم نے سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ تمہارے خلاف مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔ آئندہ احتیاط کرنا‘‘باوجود اس کے کہ وہ ایک بہت اہم اطلاع تھی انہیں نوجوان قدرت اللہ شہاب کی یہ’’خیانت ‘‘پسند نہ آئی۔ کل ہم نے قائد اعظم کا 147واں یوم پیدائش ویسا ہی بے روح انداز میں منایا ہے جیسے مناتے آرہے ہیں ، وزیر اعظم ، وزرائے اعلیٰ، گورنروں اوروزیروں کے تنخواہ دار منشیوں نے ان کی طرف سے روائتی تہنیتی پیغامات جاری کرکے اپنے فرائض منصبی انجام دیئے۔ سرکاری ملازمین اس بات پر کبیدہ خاطر ملے کہ کاش پچیس دسمبر سوموار کو آجاتا تو ہفتہ،اتوار اور سوموار کی تین چھٹیاں مل جاتیں۔۔۔برا لگے گا لیکن سچ یہی ہے کہ ہم نے اپنے رہنماؤں کی رہنمائی کا سودا چھٹیوں کے عوض کر رکھا ہے ۔ایسانہ ہوتا تو آج ہمارا یہ حال ہوتا؟ہم یوں بے توقیرہوتے ؟معاشی ،معاشرتی،ثقافتی،تہذیبی،ذہنی انحطاط کے پست میں نئے مقامات تلاش کر رہے ہوتے؟ آئی ایم ایف اور عالمی اداروں سے ذلیل ہو ہو کر ان کی ہر ہر شرط ماننے کی یقین دہانیاں کروا کر قرضے کی قسط ملنے پرناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ رہے ہوتے ؟ ہم اس وقت ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہے ہیں ،نوبت یہ ہے کہ کراچی کے ساحلوں پر سامان سے لدے بحری جہاز لنگرانداز ہیں اور حکومت کے پاس ڈالر نہیں کہ انہیں چلتا کرے ،اسٹیٹ بنک اپنی سالانہ رپورٹ میں کہہ رہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اورسیاسی عدم استحکام کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی،رپورٹ بتارہی ہے کہ معاشی ترقی کاتین سے چار فیصد کا ہدف پورا نہیں کرسکیں گے،خطر ے کی گھنٹیاں بجائی جارہی ہیںکہ ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ برس کی کم تر ین سطح پر ہیں لیکن جنہیں فکر کرنی چاہئے انہیں الزامات کی چاند ماری سے فرصت نہیں، جاتی امرائ،بنی گالہ،بلاول ہاؤس اور ڈیرہ اسماعیل خان میں توپیں ٹھنڈی ہونے کا نام نہیں لے رہیں ،وہ گھٹیارکیک الزامات کہ انسان کسی محفل میں دوہرا نہ سکے وہ ہمارے لیڈروں کی زبان پر دھرے رہتے ہیں ،ہم کردار کی متعفن گراوٹ’’پرائیویسی ‘‘ کے خوشنما قالین تلے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔اصول قانون ،ضابطے سب بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔قائد اعظم کا نام لے لے کر بے روح پیغامات جاری کرنے والے اورسیاست دانوں کو گالیاں دینے والے کوئی ایک مثال ہی لا دیں جہاں قائد اعظم نے وقار و متانت سے ہٹ کر کسی مخالف کو پکارا ہو؟ کوئی پھبتی کسی ہو؟ نام بگاڑا ہو ؟ ذاتی زندگی سے متعلق کوئی بات کہی ہو۔۔۔کوئی ایک بات کوئی ایک آدھ جملہ ؟میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پڑھاپھرہمارے یہ سیاست دان کس منہ سے اس قائد اعظم کا نام لیتے ہیں ؟ ظاہر ہے یہ محض رسمی،سیاسی ضرورت ہے۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے جسے سیاسی عدم استحکام نے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے ،دگرگوں معیشت نے معاشرت بری طرح متاثر کی ہے ، چوری چکاری،راہزنی،چھینا جھپٹی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں،بیس بیس ہزار روپوں کے موبائل فون کے لئے کڑیل جوانوں کے سینوں میں گولیاں اتاری جارہی ہیں۔ کراچی میں رواں برس راہزنی کی پچاسی ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیںا ور راہزنوں نے مزاحمت پر سو سے زائد شہریوں کی جان لی ۔۔۔ یہ کڑا وقت قربانی کا متقاضی ہے اور ہم میں سے ہر شخص دوسرے کو قربان کرنے کے درپے ہے۔ ایسے میں سیاسی استحکام تودور کی بات اس کے لئے مکالمے کا کال پڑا ہوا ہے۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہماری سیاست کے پاس تو اخلاق رہا نہ کردار۔مرزا ابوالحسن اصفہانی قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ یہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں 1945-46ء کے انتخابات کے دوران انہوںنے قائد اعظم کو بتایا کہ ان کا مخالف امیدوار ڈھائی سو روپے کے عوض ان کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار ہے ،یہ ڈھائی سو روپے بڑی رقم تھی لیکن اتنی بڑی نہیں تھی کہ اے ایچ اصفہانی کے لئے مسئلہ ہوتی۔ یہ بتاکر وہ منتظر نظروں سے قائد اعظم کی جانب تکنے لگے کہ وہ کیا کہتے ہیں ۔قائد اعظم نے تاریخی جواب دیااوراپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئے ’’مائی بوائے! سیاست میںاخلاقیات نجی زندگی سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے اگر تم پبلک لائف میں غیراخلاقی کام کروگے تو ان ہزاروں لوگوں کے جذبات مجروح کرتے ہو جوتم پر اعتماد اور انحصار کرتے ہیں ‘‘۔سوچتا ہوں کہ اس لحاظ سے اچھاہی ہے ناں کہ آج قائد اعظم اپنی سالگرہ کا کیک کاٹنے کے لئے ہم میں نہیں ،قدرت نے انہیں بڑے دکھ اور کرب سے بچالیا۔ وہ آج ہماری سیاسی، اخلاقی گراوٹ دیکھتے تو روز جیتے اور روزمرتے!