اے حمید جن کا اصل تعلق امر تسر سے تھا اور جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک امر تسر کی یادوں کو اپنے من میں چراغ سمجھ کر روشن کئے رکھا ۔اے حمید ساری زندگی کہانیاں لکھتا رہا اور اپنی دھن میں مگن رہا امر تسر کے بعد اُنہوں نے جس شہر کے ساتھ محبت کی وہ لاہور ہے ۔ لاہور بھی ایک طلسماتی شہر ہے اور اِس کاظرف اتنا زیادہ وسیع ہے کہ جو بھی باہر سے آیا اِس نے اُسے اپنے گلے سے لگایا اور اُسے اپنی بانہوں میں لے کر آباد کر دیا ۔ 1947ئ؁ کے بعد ادیبوں ،شاعروں اور صحافیوں کا ایک بڑا قافلہ امر تسر سے ہجرت کر کے لاہور آیا اور پھر اِس مٹی میں دفن ہو کر امر ہو گئے۔اے حمید اور سیف الدین سیف ایک ہی شہر میں رہتے تھے اور آپس میں گہرے دوست بھی تھے پھر اِسی امر تسر سے احمد راہی جیسا عظیم شاعر اور انسان لاہور آیا اور آتے ہی ادب لطیف کے ذریعے اے حمید کے ساتھ صحافت کا آغاز کر دیا احمد راہی بعد میں فلم انڈسٹری کے ساتھ نغمہ نگار منسلک ہو گئے تھے جبکہ اے حمید صحافت کے ساتھ فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھنا شروع کر دیئے تھے، اداکارہ سائرہ بانو جو دلیب کمار کی بیوی ہیں۔ اُن کی والدہ نسیم ایک زمانے میں بڑی خوبرو اداکارہ تھیں جنہوں نے سہراب مودی کی پکار اور سکندر اعظم میں پرتھوی راج کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ انڈین فلم انڈسٹری میں نسیم کو پری چہرہ نسیم کا نام دیا گیا تھا جبکہ اے حمید پری چہرہ نسیم کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہوڑا ایکسپریس پر بغیر ٹکٹ کے سفر کر کے پہنچ گئے تھے اور پھر پری چہرہ کے دیدار کے لیے کئی دنوں تک اُس کے گھر کے باہر بیٹھ کر اُس کا انتظار کرتے رہے اے حمید نے ساری زندگی سفر کیا اور پورے ہندوستان کو دیکھا ہندوؤں کے بڑے مندر تک نہ چھوڑے جبکہ بر ما میں بھی اپنی بڑی بہن کے پاس کچھ عرصہ تک مقیم رہے ۔ چونکہ وہ فطرت کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کرتے تھے بارش اُن کی سب سے بڑی کمزوری تھی جس طرح بنجر زمین بارش برسنے سے کھلا اُٹھتی ہے اسی طرح سے اے حمید بھی بارش کا بڑی شدت سے انتظار کیا کرتے اور پھروہ ہندوستان کے ایسے علاقوں کا رُخ کیا کرتے کہ جہاں پر بڑے بڑے جنگلات ہوا کرتے تھے۔ کلکتہ سے لے کر اس کماری تک اُنہوں نے سفر کیا جبکہ بنگال اوراُس کے جنگلات میں بھی آوارہ گردی کرتے رہے۔ اے حمید ایک بے چین روح تھے جو ہر وقت فطرت کی تلاش میں رہے اپنے سفر ناموں میں وہ زیادہ تر برما اور ہندوستان کے جنگلات کا ذکر کرتے ہیں۔ چونکہ اے حمید ایک رومائنٹک شخصیت تھے اُنہوں نے اپنی زندگی میں بڑے رومانس کئے اور اُن کو پاکیزہ محبتوں کا نام دیا۔ میری اُن کے ساتھ شناسائی اُن کے ایک تحریرکردہ واقعہ کے بعد ہوئی ۔جب میں نے یہ واقعہ پڑھاتو اُن سے رابطہ کر کے اِس کی باقاعدہ تصدیق چاہی تو اُنہوں نے ٹیلی فون پر مجھ سے گفتگو کی اور مجھے لاہور سمن آباد اپنے گھر آنے کی دعوت دی جہاں پر میری اُن کے ساتھ یاد گار ملاقات ہوئی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے میراا ے حمید کے ساتھ برسوں پرانا تعلق ہے عمر میں وہ ہمارے والد صاحب سے بھی بڑے تھے لیکن عقیدت اور محبت عمر کو نہیں دیکھا کرتی پہلے اُس واقعہ کا ذکر کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے وہ بندے بہت ہی پیارے ہیں کہ جو سچی توبہ کر کے اپنے رب کو منا لیتے ہیں میں یہ واقعہ مختصراً تحریر کروں گا تا کہ کالم میں سما سکے واقعہ کچھ یوں ہے کہ امر تسر میں لعل محمد ایک ماشکی ہوا کرتا تھا جو سارا دن شہر کی سڑکوں پر پانی کے ذریعے چھڑکاؤ کیاکرتا تھا لعل خان نے بڑی عمر میں امر تسر کی ایک طوائف سے شادی کی تھی اور اُس سے نکاح کر کے اُسے باقاعدہ اپنے گھر لے آیا محلہ داروں میں اِس شادی پر بڑی چہ مگائیاں ہوتی رہی اور کوئی بھی ہمسایہ اُس طوائف سے تعلق رکھنا بڑا معیوب سمجھتا کندن نامی وہ طوائف بھی سارا دن اپنے گھر میں رہتی۔ شام کو لعل ماشکی گھر آتا اور یوں وہ دونوں میاں بیوی اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے اپنی زندگی کے دن بسر کرتے رہے تھے ۔ہم جب کبھی لعل ماشکی کی چھت پر پتنگ اُٹھانے جاتے تو ہمیشہ یہی دیکھتے کہ کندن نامی وہ طوائف قرآن پاک کی تلاوت کر رہی ہوتی یا پھر نماز پڑھ رہی ہوتی خدا کا کرنا تین سال بعد کندن کا اچانک انتقال ہو گیا، تواُسے امرتسر کے قبرستان میں دفن کیا گیااور پانچ سال بعد اُسی قبرستان سے ایک سڑک نکالی گئی تو راستے میں کچھ قبریں آرہی تھیں محکمہ ہائی وے نے اِن قبروں کا وارث نہ ملنے پر اُن کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا اِسی راستے میں ایک قبر اُس طوائف کی بھی تھی، جو لعل ماشکی کی بیوی تھی تو جونہی قبر کو توڑا گیا تو اندر سے نعش صحیح سلامت بر آمد ہوئی محلہ والوں کو اطلاع مل چکی تھی اور سب کندن پر رشک کر رہے تھے، وہ جس سے نفرت کیا کرتے تھے ،وہی اللہ کی بار گاہ میں سچی توبہ کر کے اُن کے مقبول بندوں میں شمار ہو چکی تھی قبر سے خوشبو آرہی تھی اور اُس نیک خاتون کا کفن تک صحیح سلامت تھا ۔ اے حمید یہ واقعہ سنا کر رو پڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے گناہ گار بندے بہت زیادہ پیارے اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ ہر وقت اپنے گناہوں کی توبہ کرتے رہتے ہیں اور توبہ کرنے والے واقعی اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں اس لیے ہمیں کسی کو بھی حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے ۔ سب کا احترام کرنا چاہیے ۔ اسی کوا نسانیت کہتے ہیں ۔ ٭٭٭٭٭