اسد خوشی سے میرے ہاتھ پائوں پھول گئے،وزیر اعظم کی یہ خوش کن اطلاع سن کر کہ انہوں نے فرمایا، اللہ کا شکر ہے، ہم مشکل دور سے نکل آئے اور ملک کو معاشی استحکام دے دیا۔ ویسے اکثر لوگوں بلکہ اکثر سے زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ ملک مشکل دور سے بہت پہلے کا نکل چکا ہے۔ عمران حکومت کے سو دن پورے ہوتے ہی معاشی استحکام آنا شروع ہو گیا تھا، جو سال بھر اور مستحکم استحکام کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ دوسرے سال کے پورا ہوتے ہوتے یہ استحکام مستحکم ترین ہو چکا تھا۔ یہ تیسرا سال چل رہا ہے اور اس میں اس مستحکم ترین استحکام کو سیمنٹ اور کنکریٹ کرنے کا عمل جاری ہے ،جس کی طرف موجودہ وزیر خزانہ(تاحال) نے حلف اٹھانے سے پہلے اشارہ کر دیا تھا۔ صرف استحکام کا معجزہ ہی نہیں ہوا، وہ کرامت بھی ہو گئی اور راتوں رات ہو گئی کہ گروتھ ریٹ منفی کے بجائے اچانک ہی لگ بھگ چار فیصد کی منزل پر چڑھ بیٹھا۔ ماضی میں سنی جن بھوت پریوں کی کہانیاں آج کے دور میں سائنس نے بصورت دیگر سچ کر دی ہیں، اسی طرح الٰہ دین کے چراغ والی بات بھی اب سچ ہو گئی۔ ماضی میں ہر حکومت کی حسرت تھی کہ کاش ان کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہوتا تو وہ سارے مسئلے حل کر دیتے۔ عمران خان کی بلکہ قوم کی خوش قسمتی ہے کہ موجودہ حکومت کو وہ چراغ ہاتھ لگ گیا ہے۔ راتوں رات گروتھ ریٹ کا معجزہ اس چراغ کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ کرامتوں کے منکر اب ان کا اقرار کر لیں۔ یہ استحکام ہی کا جادو ہے کہ یونیورسٹیوں کے بجٹ میں 80فیصد کمی کرا لی گئی ہے۔ ماضی میں جو کام سو روپے میں ہوتا تھا،یونیورسٹیاں اب وہی کام 20روپے میں کریں گی۔ دوسرے لفظوں میں افراطِ رز 80فیصد کم ہو گیا۔ اے الٰہ دین کے چراغ تو اب تک کہاں تھا۔ شہر لاہور کا ترقیاتی بجٹ دو تہائی کم کر دیا گیا ہے۔ اب شہر کی ترقی کے لیے 21ارب کے بجائے محض 7ارب خرچ ہوں گے۔ ایک تو موجودہ حکومت نے لاہور کو اتنی ترقی دے دی ہے کہ مزید ترقی کی چنداں ضرورت نہیں رہی اور اگر کچھ ہے بھی تو 7ارب سے پوری ہو جائے گی۔ یہ کارنامہ بھی الٰہ دین کے چراغ نے سرانجام دیا۔ اے الٰہ دین کے چراغ تو اب تک تھا کہاں۔ استحکام کی خوشی ڈٹ کر منانی چاہیے چنانچہ محکمہ خوراک نے گندم کی بمپر پیدوار ہونے کا جشن منانے کے لیے 30لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔درآمد کو آجکل ارود میں امپورٹ کرنا کہتے ہیں ۔یہ جشن محکمے کاتھا،فلور ملز والوں نے تھیلا لگ بھگ 80روپے مہنگا کر کے خوشی منائی ہے۔ شاید انہیں زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ ہوتی تو سو روپے بڑھاتے۔ ملک کو اتنا زیادہ معاشی استحکام مل چکا ہے کہ اب ہمیں غیر ملکی سرمایہ کاری کی کچھ خاص ضرورت نہیں رہی چنانچہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں لگ بھگ 32.5فیصد کی کمی ہو گئی ہے۔ باقی ماندہ بھی نہ رہے تو کیا غم ہے۔ الٰہ دین کا چراغ ہمارے ہاتھ لگ چکا ہے۔ اے الٰہ دین کے چراغ تو اتنی دیر سے ہمیں کیوں ملا۔ استحکام کے ثمرات فی کس آمدنی میں اضافہ کی صورت بھی نکلے ہیں۔ اسد عمر نے الٰہ دین کا چراغ لہراتے، معاف کیجئے گا، کاغذات اٹھاتے ہوئے بتایا کہ فی کس آمدنی جو تیرہ سو ڈالر تھی، بڑھ کر 15فیصد ہو گئی ہے۔ اصل سرکاری کاغذات میں کچھ اور لکھا ہے ’’کہ فی کس آمدنی پچھلے دور حکومت میں 1652ڈالر فی کس تھی جو اب کم ہو کر 11سو ڈالر ہو گئی ہے لیکن استحکام کی خوشی میں ان اصل کاغذات کو مسترد کرنا لازم ہے، صرف انہی کاغذات پر اعتبار کیا جائے جو اسد عمر نے الٰہ دین کے چراغ کی روشنی میں لکھے اور پریس کانفرنس میں بتائے۔ استحکام کے اس جشن ہی کی بدولت وزیر خزانہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ بجٹ میں بجلی مہنگی نہیں کی جائے گی۔ یعنی مزید نرخ نہیں بڑھائے جائیں گے۔ یعنی یہ کہ 8روپے کی بجلی 28روپے کی ہو گئی اتنی ہی رہے گی۔ وزیر خزانہ کا اعلان اپنی جگہ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ بجلی بڑھانے کا اعلان بجٹ میں ہوتا ہی کہاں ہے، یہ تو نیپرا ہے جو ہر مہینے کبھی 94پیسے تو کبھی ایک روپے 94پیسے کے حساب سے بڑھاتا ہے اور قطرہ قطرہ کر کے اس نے 8روپے کے نکلے کو 28روپے کے ٹیوب ویل میں بدل دیا ہے۔ بہرحال بجلی 28روپے یونٹ ہو یا 38روپے، معاشی استحکام کی اس خوشی کے آگے اس نرخ کی کوئی اہمیت رہ ہی نہیں گئی۔ حالیہ تین برسوں میں 2کروڑ آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے تو کیا غم، اوپر سے ان پر استحکام کی بارش ہوتی تو یہ تو پیدا شدہ ’’غربے‘‘ ۔ اے الٰہ دین کے چراغ تو نے دریافت ہونے میں اتنی دیر کیوں لگائی۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ کے بیان کی سچائی اپنی جگہ، بجلی ہو یا اور ضروریات ان کے نرخ اسمبلی سے بالا بالا ہی بالا کر دیئے جاتے ہیں۔ بجلی کی ایک خبر اور ہے کہ سات سو یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو دی جانے والی کوئی نام نہاد سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ سب سڈی کا تو بہانہ ہے، اصل میں تو نرخ بڑھانا ہے سو بڑھ جائیں گے۔ کتنے بل آنے پر پتہ چلے گا۔ ادھر ادویات کی قیمتوں میں 40فیصد اضافہ جمعہ کے مبارک دن ہوا۔ اب تک کا یہ شاید ساتواں اضافہ ہے۔ امید ہے، عوام کا چالیسواں ہونے تک اضافوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ٭٭٭٭