لود ویگ وان میزس معروف آسٹریلین ماہر سماجیات ہیں۔ وہ انسانی رویوں کو سمجھنے میں اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے عمر بھر کی تحقیق کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا ہے’’ قانون ہی وہ واحد چیز ہے جو حکمرانوں کو بدترین گینسٹر بننے سے باز رکھتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی پاکستان میں تمام خرابیوں کی وجہ ملک میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ قانون بتاتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو صاف شفاف چل کر میرٹ اور انصاف سے سافٹ انقلاب کے ذریعے تبدیلی لانا تھی۔ اسے پاکستانیوں کی بدقسمتی کہئے یا پھر حالات کا جبر کہ جن کو تبدیلی لانا تھی اقتدار میں آ کر خود ’’تبدیل‘‘ ہو گئے اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر اعظم وفاقی کابینہ کے اجلا س میں اپنے دو وزراء کی فرمائش پر ڈرگ کمپنیوں کو 6ماہ تک ڈرگ پالیسی سے استثنیٰ فراہم نہ کرتے۔ ایسا بھی نہیں کہ وزیراعظم لوٹ مار کی چھوٹ مانگنے والوں کے عزائم اور ان کے ماضی سے لاعلم ہوں۔ پاکستان میں عوام کو ارزاں نرخوں معیاری ادویات کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی ذمہ داری ہے ادارہ یہ قومی فرضہ کس حد تک نبھا رہا ہے اس کی دھائی ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے عہدے دار دیتے رہے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا تھا ’’ڈریپ پاکستان کا سب سے کرپٹ ادارہ ہے جہاں سالانہ 25ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ ڈریپ 71ہزار ادویات کی رجسٹریشن اور قیمتوں کے تعین کا ریکارڈ غائب کر چکی ہے‘‘ ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن اور ڈرگ لائرز فورم کے سنگین الزامات کو ذاتی عناد اور رنجش کا شاخسانہ اس لئے بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ڈریپ کی کرپشن کے معاملات سپریم کورٹ تک متعدد بار گئے ایک درخواست گزار نے تو اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ ڈریپ کے اعلیٰ افسران 50بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں ایک افسر پر تو فارماسیوٹیکل کمپنی میں بغیر سرمایہ کاری کے شراکت کا الزام بھی لگایا جاتا رہاہے۔ یہ ڈریپ انتظامیہ اور فارما مالکان کی ملی بھگت کا ہی نتیجہ تھا کہ ڈریپ ادویات کی قیمتوں میں 300فیصد تک اضافے کی منظوری دیتی رہی۔ ڈریپ اور فارما سیوٹیکل انڈسٹری کارٹیل اس قدر طاقتور ہے کہ نہ صرف حکومتیں بلیک میل ہوتی رہی ہیں بلکہ سرمایہ کے زور اور قانونی موشگافیوں کی وجہ سے عدالتوں کو بھی گمراہ کیا جاتا رہاہے اور یہ ایک دو برس کا قصہ نہیں بلکہ ڈریپ کے بابوئوں کا وطیرہ بن چکا ہے وہ شاعر نے کہا ہے نا: بابو ہمیں نگل گئے اس عہد میں تو خیر رہنا پڑا تھا نبیوں کو بھی مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونسؑ کو تو پھر مچھلی کے پیٹ سے رہائی نصیب ہو گئی تھی پاکستانیوں کو ہر عہد اور ہر حکومت میں ڈریپ کے افسران اپنی لالچ اور فریب کی زنجیروںمیں جکڑ ے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سابق وزیر صحت عامر کیانی پر کروڑوں روپے رشوت لے کر ڈریپ کا چیئرمین لگانے کا الزام لگا ۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کو ان کے سابق وزیر صحت کی کرپشن کی فائل بھجوائی گئی تھی۔ انہوں نے کابینہ کو بریفنگ میں بتایا تھا کہ ادویات کی قیمتیں 15فیصد بڑھائی گئی ہیں جبکہ عملی طور پر 889ادویات کی قیمت میں 150فیصد تک اضافہ کر دیا گیا تھا۔ ڈریپ کا حکمرانوں کو گمراہ کرنے کا چلن رہا ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو کرپٹ عناصر حکومتوں سے من چاہے فیصلے لیتے رہے ہیں۔ ڈریپ کی لوٹ مار کا محکمے کے ڈرگ انسپکٹر عبید بھی انکشاف کر چکے ہیں۔ فرائی ڈے اسپیشل کی ایک رپورٹ کے مطابق عبید نے 13نومبر 2017ء کو ایک فارما کمپنی میسرز اے جے فارما پرائیویٹ کے سی ای او کو خط لکھا جس میں اے جے فارما سے وضاحت طلب کی گئی تھی کہ کمپنی نے بھارتی فارما سیوٹیکل کمپنی سپلا سے کینسر کے علاج کے لئے استعمال ہونے والے کیپسول ٹیمو سائیڈ ایک ہزار روپے میں 5کیپسول فی پیک خریدے اور ڈریپ سے دو سال کے لئے پاکستان میں 31ہزار فی پانچ کیپسول فروخت کرنے کی 2010ء میں اجازت بھی لے لی۔ کمپنی2017ء تک 31ہزار میں یہ کیپسول فروخت کرتی رہی اور ڈریپ نے آنکھیں بند کئے رکھیں معاملہ کسی ایک دوائی تک محدود نہیں کینسر کی بیماری میں استعمال ہونے والا ایک انجکشن ڈوکسی ٹیکسل 7ہزار فی انجکشن خریدا گیا اور 36ہزار میں بیچنے کی اجازت ڈریپ سے لے لی گئی۔30ہزار روپے میں خریدے گئے ہارٹ سٹنٹ ڈریپ کی مہربانی سے ملک میں تین تین لاکھ میں فروخت ہوتے رہے یہاں تک کہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا عدالت بھی لوٹ مار پر حیران و پریشان تھی عدالت نے ڈریپ کو سٹنٹ کی مناسب قیمت مقرر کرنے کا حکم دیا تو دو سال تک فائلیں ایک میز سے دوسرے میز تک گھومتی رہیں ڈریپ پر71ہزار ادویات کی رجسٹریشن اور قیمتوں کے تعین کی فائلیں غائب کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے عدالت کتنے معاملات میں مداخلت کر سکتی ہے؟ یہ لوگ ہر بار لوٹ مار کا کوئی نیا طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں کرپٹ ٹولہ جن کو خریدا جا سکتا ہے ان کو ہر قیمت پر خریدلیتا ہے جو خریدا نا جا سکے اس کو فائلوں کے چکر میں الجھا کر من چاہے فیصلے لیئے جاتے ہیں اس بار وزیر اعظم عمران خان سے 6ماہ تک کورونا ویکسین من چاہی قیمت پر فروخت کرنے کی اجازت لی گئی کیونکہ یہ مافیا جانتا ہے کہ نگرانی پر مامور ڈریپ کے اہلکار ان کی جیب میں ہیں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان اتنے فارغ نہیں کہ چھ ماہ بعد ان کو یہ یاد بھی ہو کہ انہوں نے چھ ماہ کے لئے اجازت دی تھی اس کا دوبارہ تعین کرنا ہے۔جس وزیر اعظم کو طلب کرنے پر بھی درست معلومات نہ ملنے کا شکوہ ہو وہ کس بنا پر یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ ڈریپ چھ ماہ بعد کورونا ویکسین کی قیمت کا ازسرنو تعین کرنے کی طرف وزیر اعظم کی توجہ دلائے گی۔ اب یہ سوچنا تحریک انصاف کی قیادت اور وزیر اعظم کا کام ہے کہ انہوں نے ملک سے کرپشن ختم کر کے ملک میں میرٹ اور انصاف کی حکمرانی کا قوم کو جوخواب دکھلایا تھا اس کو کس طرح شرمندہ تعمیر کرنا ہے حکومت کے اب تک کے فیصلوں سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ دانستہ یا نادانستہ کرپٹ مافیاز کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں کچھ بہتی گنگا میں خود بھی ہاتھ دھو رہے ہیں وزیر اعظم تین سال حکومت کرنے کے بعد اگر تبدیلی لانے کے بجائے تبدیل ہونے پر مجبور ہیں تو پاکستانی یہ کہنے پر کیوں حق بجانب نہ ہوں: ہوئے رشوت کے آگے سرنگوں سب مثالیں دے رہے تھے کربلا کی