قدرت کے اس مُحیرالعقول کارخانے میں جس چیز بھی غور کرتاہوں تومجھے لامحالہ سورۃ رحمن یاد آتی ہے۔ اس مبارک سورۃ میں خدا انسان اور جنات کومتنبہ کرکے سوال کرتاہے کہ میری کس کس نعمت کا انکار کروگے کیونکہ ان کا کوئی حد وحساب نہیں ہے‘‘۔بلاشبہ عرش سے فرش تک خدا نے اپنی مخلوقات کیلئے نعمتوں ہی نعمتوں کے دسترخوان بچھائے ہیں اور اس سے مستفید ہونے والوں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اِن نعمتوں کا شکر اداکرنے کے ساتھ ساتھ اس پر غور بھی کرتے ہیں۔ میں نے آج کے اس مختصر کالم میں جس عظیم نعمت کے بارے میں لکھنے کا ارادہ کیاہے وہ اُوزون کی تہہ (Ozone layer) ہے۔اُوزون کی تہہ اس کائنات میں وہ چھپی ہوئی نعمت ہے جس کا کھوج گویا انسان نے لاکھوں برس بعد1839ء میں لگایا۔بلکہ یوں سمجھیے کہ اس ڈیجیٹل دور میں کروڑوں انسان اب بھی اس تہہ کے فوائدیہاں تک کہ نام سے بھی ناواقف ہیں ۔اُوزون ،زمیں کی سطح سے بیس تا پینتیس کلومیٹر کی دوری پر تنی ہوئی حفاظتی تہہ یا شیلڈکانام ہے جس نے سورج کی مہلک شعاعوں کو ہم سے روکا ہواہے۔ ویسے تو سورج بذات خود انعامات اور فوائد کاسرچشمہ ہے جس کے دم قدم سے زمیں پر زندگی کاپہیہ گھوم رہاہے تاہم اسی سورج کے وجود سے بعض ایسی شعاعیں بھی نکل کر زمیں کی طرف آتی ہیں جوزندگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔انسانوں میں جِلدکاکینسر، آنکھوں اور پھیپھڑوں کے امراض وغیرہ کے علاوہ یہ دیگرجانداروں اور پودوں کیلئے بھی نقصان دہ ہیں۔یہ الٹراوائلٹ شعاعیںUltarviolet radiations) (کہلاتی ہیں جس سے اُوزوں کی تہہ ہی نے ہمیں بچائے رکھاہے۔سائنس دانوں کے مطابق اوزون کی غیرمرئی تہہ اصل میں سورج کی روشنی سے نکلنے والی آکسیجن کے تین سالمے سے تشکیل پاتی ہے ۔ کہاجاتاہے کہ یہ تہہ انتہائی نازک ہے اور آسانی سے زائل ہوسکتی ہے ۔لیکن بدقسمتی یہ درآئی کہ آج سے لگ بھگ اڑتالیس سال پہلے ایک سائنسدان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اُوزون کی تہہ کو زمیں سے اٹھنے والے مختلف کیمیائی مواد اور گیسوں سے خطرات لاحق ہیں۔ امریکہ کی کلیفورنیا یونیورسٹی کے دو سائنسدانوں ماریومولینااور شیرووڈرولینڈنے یہ انکشاف کیا کہ اُوزون کی تہہ کو کلوروفلوروکاربنز(CFCs) بدستور پتلا کررہی ہے ۔دوسال بعد کولمبیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے براعظم انٹارکٹیکا کی فضا میں اس تہہ میں ایک سوراخ ہونے کا دعویٰ کیا ۔ سائنسدانوں کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ اُوزون کے اس سوراخ کا حجم مبینہ طور پر گرین لینڈکے رقبے سے تین گنا بڑاہے جس کیلئے اگر حفاظتی تدابیر نہیں کیے گئے تو مستقبل میں یہ مزید وسیع ہوسکتاہے ۔ سائنسدانوں کے ان خطرناک انکشافات نے اس بارے میں دنیا کو فی الفورحفاظتی اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا اوراقوام متحدہ کے ایک سو ستانوے ممبر ممالک نے کلوروفلورکاربنز کے بے تحاشا اخراج پر پابندی لگانے کیلئے 1987 میں مونٹریال پروٹول کے نام سے ایک معاہدہ کیا۔اس معاہدے کے تحت جنوبی افریقہ کے دارالحکومت نیروبی میں اُوزون کے نام سے سیکرٹریٹ قائم کرنے کے علاوہ 1991میں اس پروگرام کیلئے فنڈ ریزنگ مہم بھی شروع کیاگیا۔ سائنسی ماہرین کے مطابق اگرچہ اُوزون کی تہہ کو پتلا کرنے میں میتھل برومائڈ (جسے کسان پودوں کو کیڑے مکوڑوں سے بچاوکیلئے استعمال کرتے ہیں) ، نائٹرس آکسائیڈ اور ہولوجینیٹد ہائیڈروکاربن جیسی گیسز کا ہاتھ بھی ہے تاہم ریفریجریٹرز، ایئر کنڈیشنرز ،ایروسول (مائع اورجامد کیمیائی مواد کاغبار) ، ہیئرسپریز،پلاسٹک وغیرہ سی ایف سیز پیداکرکے اُوزون کی تہہ کوسب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ مویٹریال پروٹول پر عمل درآمد کا نتیجہ یہ ہوا کہ 2000سے2015کے درمیان اُوزون کے متاثرہ حصے کا مسلسل معائنہ کرنے والے سائنس دانوں نے دعویٰ کیاکہ اُوزون کی متاثرہ تہہ اس وقت چارملین مربع فَٹ یعنی چالیس لاکھ مربع فَٹ مندمل ہوئی ہے ۔ کورونا وبا کی علمگیر وبا کے پھیلاو کی وجہ سے اگرچہ بہت سے لوگ رواں سال کو ایک بدقسمت سال سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ہم اگر غور کریں تو رواں سال اوزون کے حوالے سے ایک مبارک سال بھی ہے کیونکہ تین مہینے پہلے یکم مئی کواقوام متحدہ کے ادارے WMO))نے اعلان کیا کہ اُوزون تہہ کا متاثرہ حصہ اب مندمل ہوچکاہے ۔کچھ سائنسی ماہرین کوروناوباکی وجہ سے عالمی لاک ڈاون کو اُوزون کی تہہ بھرنے کا سبب بتاتے ہیں جبکہ کوپرنیکس ایٹماسپیرمانیٹرنگ سروس( CAMS)سے منسلک سائنس دان اس دعوے سے اختلاف کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ حقیقت میں خلاف قاعدہ طویل قطبی گرداب باقی ماندہ متاثرہ اُوزون کیلئے مسیحا ثابت ہواہے۔بہر کیف خلاف ِمعمول قطبی گرداب یاپھر کورونا کے خاتمے کیلئے ہونے والے لاک ڈاون جو بھی اُوزون کے مندمل ہونے کی وجہ بناہو ، ایک انتہائی نیک شگون ہے ۔ اقوام متحدہ نے سولہ ستمبر کو اُوزون کی تہہ کے بچاو کا عالمی دن قرار دیاہے ، آئیے ہم بھی حتی الوسع سی ایف سیز کے اخراج میں کمی لاکر اوزون کو بچانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔