نئے پاکستان میں اقبال کی تو ’’ چھٹی‘‘ ہو گئی ہے، پرانے پاکستان کا خواب دیکھنے والوں کا نئے پاکستان میں کیا کام؟ دیکھنا اب یہ ہے کہ سونامی کے گزر جانے کے بعد پرانے پاکستان کے کتنے نقوش ہیں جو سلامت رہ پاتے ہیں؟ جی ہاں مجھے معلوم ہے ، اقبال کی ’’ چھٹی‘‘ بنیادی طور پر نواز شریف کے دور میں ہوئی تھی جب ایک وزیر محترم نے اقبال کا شعر غلط لکھ کر بتایا تھا کہ ’’بندہ حُر‘‘ اب ہر نقشِ قدیم مٹا دینے پر تل چکا ہے۔لیکن جب یہ حادثہ ہوا تھا اور میرے جیسے طالب علم احتجاج کر رہے تھے تو یہ عمران خان تھے جنہوں نے مسیحائی کی تھی۔ کیا آپ کو وہ ٹویٹ یاد ہے؟ اس ٹویٹ کے چار حصے تھے۔ عمران خان نے پہلے حصے میں لکھا میں نے کے پی کے کے وزیر اعلی پر ویز خٹک سے درخواست کی ہے کہ وہ صوبے میں یوم اقبال کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کر دیں۔ دوسرے حصے میں عمران خان نے بتایا وہ ذاتی طور پر چھٹیوں کے حق میں ہر گز نہیں لیکن یوم اقبال کی تعطیل کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ اقبال کی فکر میں پاکستان کا نظریہ مجسم ہے۔ ٹویٹ کے تیسرے حصے میں عمران خان نے اس تعطیل کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا آنے والی نسلوں کے لیے اقبال کی فکر کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ پاکستان کی نظریاتی بنیادیں مستحکم ہو سکیں۔ ٹویٹ کے چوتھے حصے میں عمران خان نے لکھا: ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اقبال کی فکر اپنی نسلوں تک منتقل کر سکیں تا کہ اقبال اور ان کی فکر پاکستان کی حفاظت کے لیے مورچہ زن رہ سکے۔ عمران خان نے اقبال کے حوالے سے اپنی سوچ عوام کے سامنے رکھی تو ان کی تحسین کی گئی۔ لوگوں نے سمجھا ایک ’’ غیرت مند مسلمان‘‘ اپنی فکری بنیادوں کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔انہیں کیا معلوم تھا بھائی جان تو صرف نواز شریف کی مخالفت میں اقوال زریں سنا رہے تھے اور اقبال اور فکر اقبال تو فقط زیب داستان کے لیے بیچ میں آ گئے۔ کتنے ہی آدرش تھے جن کی بنیاد پر عمران خان کو لوگوں نے چاہا ۔ آج مگر سب وعدے خزاں کے پتوں کی طرح راستوں پر بکھرے پڑے ہیں۔ برہان تازہ اب یہ ہے کہ یوم اقبال کی تعطیل کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ صرف اس وقت ضروری تھی جب اقتدار نواز شریف کے پاس تھا کیونکہ نواز شریف جو کرتا ہے غلط کرتا ہے اور ہم جو کر گزریں اسے معیار حق نہ سمجھنا والا ’’ ولیج آفیسر‘‘ ہوتا ہے۔ جی ہاں وہی ولیج آفیسر جسے چند روز پہلے تک پٹواری کہا جاتا تھا۔ کسی شخصیت کی فکر سے وابستہ رہنے کے لیے بلاشبہ تعطیل ضروری نہیں ہوتی۔ لیکن اس میں استثناء بھی ہوتا ہے۔ اقبال ایسے ہی ایک استثناء کا نام ہے۔ نئی نسل کے لاشعور میں ایک بات بٹھا دینے کے لیے ایسے علامتی اظہار ضروری ہوتے ہیں۔ایسے علامتی اظہار دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔۔ہنگری میں 20 اگست کوسینٹ سٹیفن ڈے منایا جاتا ہے اور تعطیل ہوتی ہے ،آئرلینڈمیں 17 مارچ کوسینٹ پیٹرک ڈے پر تعطیل ہوتی ہے،یہ دن سکاٹ لینڈ اور ویلز میں بھی منایا جاتا ہے اور چھٹی ہوتی ہے،سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے سینٹ اینڈریو ڈے منانے اور چھٹی کرنے کا بل بھی پاس کیا ہے،جاپان میں شہنشاہ اکیہیٹو کے یوم پیدائش پر23 دسمبر کو تعطیل ہوتی ہے،ہر جنوری کی تیسرے سوموار کو امریکہ میں مارٹن لوتھر ڈے منایا جاتا ہے اور عام تعطیل ہوتی ہے۔ اٹلی،آسٹریا،سپین،جرمنی اور فرانس میں 26 دسمبر کو سینٹ سٹیفن ڈے پر چھٹی ہوتی ہے۔سپین میں 24 جون کو سینٹ جونز ڈے اور 19 مارچ کو سینٹ جوزف ڈے پر چھٹی ہوتی ہے۔ بلجیم میں تو سینٹ ویلنٹائن ڈے پر بھی چھٹی ہوتی ہے،بھارت میں 2 اکتوبر کو گاندھی جی کے یومِ پیدائش پر تعطیل ہوتی ہے۔کامن ویلتھ کے کئی ممالک میں ابھی تک ’ کوئینز برتھ ڈے‘ منایا جاتا ہے اور چھٹی کی جاتی ہے۔خود ہمارے صوبہ سندھ میں بے نظیر صاحبہ کی یاد میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ رواداری اور بقائے باہمی کے اقوال زریں کے باوجود ہم تصادم تہذیب سے دوچار ہیں۔غالب تہذیب مغرب کی ہے اور اس کا مطالبہ ہے شرف انسانیت کا معیار صرف اسی کو قرار دیا جائے۔انگریزی کلچر تہذیب کی علامت ہے لیکن کوئی عربی کے دو لفظ بول دے تو احباب چیخنا شروع کر دیتے ہیں کہ پاکستان کے خیمے میں بدو کا اونٹ داخل ہو گیا۔تہذیب مغرب کی یلغار پر بات کی جائے تو کہا جاتا ہے دنیا گلوبل ولیج بن چکی اور اسلامی تہذیب کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے یہ قدامت پسند ہو گیا۔ اقبال اسلامی فکر اور تہذیب کا استعارہ ہے۔ اس لیے نشانے پر ہے۔معاملہ اگر یہ نہیں ہے تو ذرا یکم مئی کو یوم مزدوراں کی تعطیل بھی ختم کر کے دکھائیے۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ قائد اعظم ؒ کے ساتھ تو فکری بد دیانتی کرتے ہوئے گیارہ اگست کی تقریر سے سیاق و سباق سے ہٹ کر سیکولر زم برآمد کر لیا گیا لیکن اقبال کے ساتھ ایسی کوئی واردات ممکن نہیں۔چنانچہ قوم کے اجتماعی حافظے سے اقبال کو مٹانے کا ایک عمل شروع ہو چکا ہے۔یہ محض اتفاق نہیں کہ یوم اقبال کی تعطیل کے خاتمے پر پر بیانیے اور تبدیلی میں ’’ اتفاق رائے ‘‘پایا جاتا ہے۔ یہ ایک واردات ہے۔نواز شریف دور میں یہی ہوا تھا۔پہلے ایک وزیر محترم کا میسج ملا کہ اقبال پر ایک تقریب ہے تشریف لائیے گا۔پھر بندہ حُر نے اقبال کے غلط شعر لکھ کر یوم اقبال کی تعطیل ختم کرنے کا اعلان فرمایا تو شام کو ایک اور پیغام ملا تقریب منسوخ کر دی گئی ہے ، زحمت نہ کیجیے گا۔اب بھی یہی ہو گا۔صرف یوم اقبال کی تعطیل ختم نہیں ہو گی ، قوم کے اجتماعی حافظے سے بھی اقبال کو مٹانے کی کوشش کی جائے گی اور دس نومبر کے اخبارات میں یوم اقبال کی تقاریب کے انعقاد کا ذکر نہیں ملے گا۔ وہا ںغیر معمولی وارفتگی سے کرتار پور کاریڈور کی تقریب کا احوال بیان ہو رہا ہو گا ۔ 9 نومبرکو مزار اقبال پر کوئی حاضری دے یا نہ دے نوجوت سنگھ سدھو کے استقبال کو سبھی حاضر ہوں گے۔