اسلام آباد (خبرنگار، مانیٹرنگ ڈیسک) صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگرفریقین کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکے وکیل نے موقف اپنایا ہے کہ جسٹس فائز نے ٹیکس قوانین کی شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی۔ٹیکس قوانین میں منی ٹریل کا کوئی ذکر نہیں، منی ٹریل کا معاملہ پانامہ کیس میں پہلی بار سامنے آیا۔ منی ٹریل آف شور کمپنیوں میں سامنے لانا ہوتی ہے جہاں اصل مالک کا علم نہ ہو۔جسٹس فائز عیسی ٰکی اہلیہ اور بچے لندن میں اثاثوں کے مالک ہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں نے کبھی ملکیت سے انکار نہیں کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی تو بابر ستار نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ٹیکس شہری اور ریاست کے درمیان معاملہ ہے ، کوئی شخص کسی دوسرے کے ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا،انکم ٹیکس قانون کا اطلاق آ مدن پر ہوتا ہے اثاثوں پر نہیں۔بابر ستار نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس ٹیکس گوشواروں کے ساتھ ویلتھ سٹیٹمنٹ نہ جمع کرانے پر 25 ہزار جرمانہ ہے ، جسٹس یحییٰ آفرید ی نے کہاکہ کیس میں ایشو انکم نہیں اثاثہ ہے ، بابرستار نے کہایہ اثاثہ کبھی جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکا رہا ہی نہیں ، قانون کے مطابق کیا زیر کفالت اہلیہ ،بچوں اور دیگر افراد کے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہے ؟ جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیاکہ کیا ٹیکس آ فیسر نوٹس جاری کئے بغیر اپنی رائے دے سکتا ہے ؟بابر ستار نے کہاٹیکس کمشنر نے اپنے طورپر 116 کی خلاف ورزی کا فیصلہ کیا۔جسٹس عمر عطا نے کہاکہ2013ء کے ویلتھ سٹیٹمنٹ فارم کے مطابق اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کا علم ہونا لازم ہے ۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ بیوی شوہر کے زیر کفالت نہ بھی ہوتو اس کے اثاثوں کا علم ہونا ضروری ہے ،قانون میں اہلیہ کا ذکر ہے زیر کفالت کا نہیں۔ بابر ستار نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2013ء میں اپنے گوشوارے جمع کرائے تھے ۔عدالتی وقت ختم ہونے پرمزید سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی گئی۔