مسلمانوں کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ تاریخ جہاں پر آپس کی لڑائیوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے نہ جانے کیا کچھ کرتے رہے لیکن جہاں پر یہ ایک تلخ حقیقت رہی تو وہاں پر اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر اگلے ایک سو سال تک مسلمانوں کی تاریخ انتہائی روشن اور درخشندہ رہ چکی ہے، خلفاء راشدین کے دور کو حضور اقدس ﷺ کے بعد کا بہترین زمانہ کہا جاتا بلکہ حضور اقدس ﷺ کا فرمان مبارک بھی ہے کہ سب سے اچھا زمانہ میرا ہے اور پھر اُس کے بعد میرے صحابہ کرام ؓ یعنی خلفا ء راشدین کا زمانہ اور اُن کے بعد تا بعین کا زمانہ اچھا ہے، اسلامی فتوحات کا آغاز خلیفہ اول جناب حضر ت ابو بکر صدیقؓ کے دور سے شروع ہوا، انہوں نے تمام اسلامی فوجوں کا آرمی چیف ( سپہ سالار) جناب حضرت خالد بن ولید ؓ سیف اللہ کو بنا دیا تھاجبکہ اُن کے ساتھ حضرت ابو عبید بن جراح ؓ ،حضرت مثنی ؓ ، حضرت سعید بن وقاص ؓ فاتح ایران حضرت ظرار ؓ ، حضرت زبیر بن عوام ؓ جیسے جری اور اہل تقویٰ صحابہ کرام ؓ شامل تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دو سالہ دور حکومت میں حضرت خالد بن ولید ؓ نے شام پر حملوں کا آغاز کر دیا تھا اور اِس کے کچھ حصے فتح بھی کر لیے تھے ۔ کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد حضرت فاروق اعظم ؓ خلافت پر بیٹھے اور دس سال تک جہاد کو پوری آب تاب کے ساتھ جاری رکھا اُنہی کے دور حکومت میں ایران اور شام فتح ہوئے بیت المقدس پر مسلمانوں نے فتح حاصل کی اور 22 لاکھ مربع میل پر اسلامی حکومت کا پرچم لہرا چکا تھا، پھر اُن کے بعد حضرت عثمان غنی ؓ کے دور میں اِن فتوحات کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک مسلمان افریقہ اور مکران تک چکے گئے ۔ صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی جماعت چین تک اسلام کی تبلیغ کی خاطر پہنچ گئی، پھر حضرت علی ؓ بن ابی طالب کا دور خلافت شروع ہوا جنہوں نے جہاد کو پوری قوت کے ساتھ جاری رکھا لیکن اُن کے دور میں خوارج کے فتنے کے ساتھ بھی حضرت علی ؓ نے پوری قوت ایمانی کے ساتھ جہاد کیا ور خوارج کے فتنے کا سر کچل کر رکھ دیا ۔ حضرت حسن بن علی ؓ نے چھ ماہ بعد خلافت کی ذمہ داریاں حضرت معاویہ ؓ کے سپرد کر دی اور امت کے دو بڑے گروپوں میں صلح کرا دی ۔ چونکہ حضور اقدس ؐ کا فرمان مبارک ہے کہ میرا بیٹا حسن ؓ میرے اور میری اُمت کے دو گروہوں میں صلح کا کردار ادا کرائیں گے اللہ کے پاک رسول ﷺ کی پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی ۔ اور یوں اُمیہ خاندان کی خلافت کاآغاز ہوا اور پھر مسلمانوں کے لشکر اندلس تک جا پہنچے ۔ جبکہ 725ء میں حضرت طارق بن زیاد اور موسی بن یفرنے اندلس کے ساحل پر جب قدم رکھا تو یہ سر زمین مسلمانوں کے لیے اجنبی تھی ۔اسی ساحل پر عظیم مسلمان جرنیل طارق بن زیاد نے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں تا کہ شکست کی صورت میں واپسی کا راستہ نہ رہے اور دوسری اہم بات مسلمانوں کو صرف اور صرف اپنے رب پر توکل کر کے یہ جنگ ہر حال میں جتنی ہے تا کہ اُن کو کشتیوں کے ذریعے واپسی کا خیال ہی نہ رہے اب جینا مرنا اندلس میں ہی ہو گا پھر یہی ہوا کہ مسلمانوں نے عیسائیوں کا اپنے سے چار گنا لشکر کو شکست دے کر اندلس کو فتح کر لیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ پونے آٹھ سو سال تک پورے ا ند لس پر حکومت کی مسلمانوں نے یہی پر غرناطہ شہر کی بنیاد رکھی۔ عبد الرحمن سو م نے دو سو سال بعد مسلمانوں کے مرکز بغداد یعنی خلافت عباسہ سے رشتہ توڑ دیا اور اپنی طاقت کے ناز میں اکیلے ہی پورے اندلس پر حکومت کرنے لگا ۔ اِس دوران عیسائیوں کی سازشیں جاری رہی اُن کو اپنی شکست کا بدلہ اور اند لس واپس لینا تھا اور یوں آہستہ آہستہ محلاتی سازشیں جاری رہی مسلمانوںکے حرم میں خوب صورت عورتوں کو داخل کیا گیا اُن کو عیش عشرت کا عادی بنا دیا گیا۔ تو اُنہوں نے غرناطہ شہر میں دریا کنارے بیٹھ کر جب مسلمانوں کے عظیم الشان ماضی کو اپنی تخلیق کے ذریعے آواز دی اور ایک نظم آہوں اور سسکیوں کے ساتھ لکھی اور پھر جامع مسجدقر طبہ میں جب نماز پڑھنے کے لیے گئے تو ایک عظیم الشان نظم دعا کے عنوان سے لکھی جس کے ایک ایک مصرعے سے خون ٹپکتا ہے علامہ اقبال نے ایسے درد اور سوز سے یہ نظم لکھی جو آج بھی اگر کوئی صاحب دل درد سوز کے ساتھ پڑھے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں : ہے یہی میر ی نماز ہے یہی میرا وضو میری نو اوں میں ہے میرے جگر کا لہو راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو علامہ اقبال جیسا درد دل رکھنے والا عظیم انسان اب اِس اُمت میں دوبارہ پیدا نہیں ہو گا لیکن افسوس کہ ہم مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں نے بھی علامہ اقبال کے کلام کو فراموش کر دیا ہے۔ پھر بعد میں علامہ اقبال نے مسجد قر طبہ بیٹھ کر ایک طویل نظم لکھی تھی ۔ مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے آخر کا ر یہ اند لس سے پہلے بے دخل ہوئے اور پھر مسلمانوں کا اند لس میں آخری باد شاہ ابو عبد اللہ نے جب اپنے پسند یدہ شہر غر ناطہ کو الو ادع کیا اور اسے چھوڑا تو وہ غر ناطہ سے کچھ دور جا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اُس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ ’’ہائے میرا غر ناطہ ‘‘تو اُس کی والدہ جو اُس کے ساتھ تھی تو اُس نے ابو عبداللہ کو ڈانٹ کر کہا تھا کہ جس شہر کا تم مردوں کی طرح دفاع نہیں کر سکے اب عورتوں کی طرح رونے سے کوئی فائدہ نہیں واقعی جب بھی مسلمانوں کی تاریخ میں عیش و عشرت کا عمل دخل شروع ہوا تو پھر یہ اپنے اپنے بڑے اثاثوں سے محروم ہو گئے جیسے آج تک پھر اند لس میں طارق بن زیاد اور موسی بن یفر جیسے عظیم جرنیل پیدا نہیں ہو سکے ۔