کاش کوئی کولمبس پیدا ہو جائے جو پہلے کولمبس سے زیادہ شہرت پا کر تاریخ میں مقام پائے ۔ جو یہ دریافت کر سکے کہ موجودہ حکومت کی رٹ پاکستان کے کس حصے یا صوبے میں پائی جاتی ہے؟ بلوچستان میں تو مہنگی ادویات سے لے کر زائد المعیاد ادویہ تک کے خلاف کارروائی کرنے والا محکمہ ابھی معرض وجود میں ہی نہیں آیا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا نام تک ایک وفاقی عہدیدار کو معلوم نہ تھا اور اس نے ٹی وی پر بیٹھ کر کچھ دنوں کا وقت مانگا ہے ۔ رہی بات یہ کہ پہلے سے چلنے والے اداروں کے قواعدو ضوابط میں تبدیلی نہیں،’’تبدیل‘‘ کیا گیا ہے پہلے کسی میڈیکل سٹور پر بھی عام آدمی بلڈ پریشر چیک کروا لیتا تھا۔ اب ہسپتال پہنچنے تک راستے میں ہیدم توڑ جاتا ہے۔ پہلے سڑکوں پر اگر بس یا پبلک ٹرانسپورٹ والے سواری اٹھاتے یا اتارتے تھے ’’تو پرچی ‘‘ووٹ نہیں ،بھتہ تیس روپے سے لے کر پچاس روپے تک تھی اب بھتہ مافیا نے سو روپے سے لے کر ڈیڑھ سو روپے تک کر دی ہے۔ حالانکہ ایسے مافیا کو نکیل ڈالنے کے لئے سب سے پہلا حکم جاری کیا گیا تھا۔ اب تک یہ حالت ہے کہ میرے حلقے کے ایم این اور ایم پی اے نے اپنے اپنے حلقے میں ہر بس سٹاپ پر بریک لگانے کا ریٹ مقرر کر رکھا ہے اور ان دونوں کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ یہ حوالہ اس لئے دیا ہے کہ حکمرانوں کا ن لیگ کا حوالہ اور تذکرہ آتے ہی بلڈ پریشر سو پوائنٹ اوپر چلا جاتا ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ انڈے مرغی اشیائے خوردو نوش کے تناسب سے اڈوں پر لئے جانے والے بھتے کا ریٹ بڑھتا جائے گا۔ صاف سی بات ہے کہ شاہراہیں حکومت بناتی ہے اور ٹرانسپورٹ والے باقاعدہ منظور شدہ ٹیکس اور اڈہ فیس لاری اڈوں میں دیتے ہیں مگر سیاسی اجارہ داروں کے غنڈے ایک بندہ کھڑا کر کے بھتہ بٹورتے ہیں جس کا نقصان حکومتی رٹ کے غیر موثر ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے کہ ٹرانسپورٹ والے سواریوں سے وصولی کرتے ہیں۔ حکومتی رٹ یا سرکاری انتظام و انصرام کا یہ عالم ہے کہ پچھلے سال موسم گرما میں لاہور کی میٹرو بس کے کسی سٹاپ پر ٹھنڈا تو درکنار گرم پانی تک دستیاب نہیں تھا اور اس پر میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر دہائی دی تو مہینے بعد کربلا کا منظر ختم ہوا۔رہی بات سڑکیں بنانے یا ان کی مرمت کی تو صرف مثال کے آئینے میں حکومتی رٹ کا روپ نظر آ جائے گا راولپنڈی کے مشہور زمانہ فیض آباد سے لے کر پیر ودھائی اڈے سے غوثیہ اڈے تک سڑک کا یہ حال ہے کہ جیسے کتوں نے رضائی پھاڑ رکھی ہو۔ سمندری موٹر وے سے باہر آ کر چھ کلو میٹر سمندری تحصیل میں آ نے اور واپس موٹر وے جانے تک ایک گھنٹہ لگتا ہے مگر مجال ہے کہ کھنڈرات سے بھی بدتر اس سڑک پر کسی نے ایک اینٹ لگائی ہو۔ لاہور اور کراچی کچرے سے اٹے ہوئے ہیں ۔عوام کو توقع تھی کہ شاہراہوں اور شہروں سے ہی نہیں بلکہ حکومتی ایوانوں میں گھس بیٹھے کچرے کو بھی ٹھکانے لگایا جائے گا مگر اب تک کچرا کلچر کی اصطلاح عام ہونے لگی ہے کہ برداشت یا صبر کرو کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔مہنگائی کے موضوع پر پنجاب کے مشہور لوک گیت کلی کلیروی کی پیروڈی کسی مزاح نگار نے کی ہے: پینٹ میرے ویر دی کوٹ مرے بھائی دا لنڈیوں منگوائی دا‘ فٹ کروائی دا فیر گل پائی دا فٹے منہ مہنگائی دا اگر کولمبس دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ حکومتی رٹ ٹیلی ویژن سکرین کے علاوہ کہیں ہے تو سارے کوسنے‘ طعنے کولمبس کو دیے جائیں کیونکہ حکومت تو بہت ایماندار‘شاندار‘ طرح دار اور ہر الزام سے بے نیاز ہے۔ معصوم و پاک باز و پوتر ، کہ ہر قسم کی گندگی اس لئے صاف نہیں کرتے کہ کہیں اجلے دامن پر کوئی چھینٹا نہ پڑے ۔ بیرونی طاقتوں نے اس قسم کے لوگوں کو مسلط کر کے پاکستان اور اسلام دشمنی کا بدلہ لیا لہٰذا تمام حکومتی ترجمانوں کو چاہیے کہ با جماعت پریس کانفرنس کے ذریعے کچرا کلچر اور مہنگائی کا حل نکالنے کے لئے یہ موقف اختیار کریں کہ پورا ملک حکومت سمیت صاف ستھرا بلکہ لشکارے مار رہا ہے صرف عوام پی ڈی ایم کی عینک سے دیکھتے ہیں اور رہی بات یہ کہ کچرے اور غلاظت کے ڈھیروں سے بو آ رہی ہے تو اس میں سونگھنے والوں‘ دیکھنے والوں کا قصور ہے وہ اپنی آنکھوں اور ناک کا علاج کروائیں جن کو بدبو اور تعفن محسوس ہو رہا ہے ان کی قوت شامہ جواب دے چکی ہے حالانکہ روڑیوں ‘کچرے کے ڈھیروں سے فرانس کے پرفیوم کی خوشبو آتی ہے۔ حکومتی ترجمان مزید وضاحت کریں کہ دو چار لوگ جو کہ ایک ہاتھ کی انگلیوں کے پوٹوں کے برابر ہیں وہ نقص امن نہیں کچھ دن مزید صبر کریں ہم امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ فرانس سے ایل این جی کی طرح پرفیوم کے کنٹینر منگوا رہے ہیں بس ان کے پہنچنے کی دیر ہے ،ممکن ہے کہ جب تک پرفیوم اور خوشبوئوں کے کنٹینر آئیں بھیڑ بکریاں چرانے والے کی بہو کی طرح سارا تعفن دور ہو جائے۔ ترجمان جب یہ وضاحت اور تجویز نشر کر دیں گے کہ حکومت کی طرف سے فری آٹا‘ چینی‘ گھی اور گیس کے ساتھ ساتھ ایک سلنڈر پرفیوم کا بھی گھروں میں بھجوا دیں گے پہلا پیکیج ان گھروں میں دیا جائے گا جو مہنگائی کو فتے منہ نہ کہیں گے۔