قدرت کی تخلیقات یوں تو ہماری ناقص عقل سے باہر ہیں لیکن تھوڑاغور کریں تو بعض چیزوں کی شانِ تخلیق کسی قدر سمجھ آتی ہے۔ مثلاً ایک عرصہ تک ہمیں بالکل سمجھ نہیں آتا تھا کہ بکروں کے کان اتنے لمبے کیوں ہوتے ہیں ۔ لیکن اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ بکرے کے کان بنیادی طور پر اسے پکڑنے اور قابو کرنے کے کام آتے ہیں ۔ اس عظیم تفہیم کی وجہ یہ ہے کہ ایک مدت سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بکروں کو پکڑنا ہو، انہیں چہل قدمی کروانا مقصود ہو یا انہیں ان کی مرضی کے خلاف ایک جگہ سے دوسری جگہ گھسیٹ کر لے جانا ہو ، ان تمام مقاصد کے لیے انتہائی کارآمد اور مفید ذریعہ بکرے کے کان ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قصائی حضرات اور اُن کے لائق اور مستعد صاحبزادے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے بکروں کو اس ذریعے سے بہت آسانی کے ساتھ قابو کرتے اور چلاتے بھگاتے پھرتے ہیں ۔ کسی بڑے تگڑے اور بیل نُما بکرے کو بھی جب قصائی کا بچہ کان سے پکڑتا ہے تو وہ بیچارہ بالکل ’’ بکری ‘‘ بن جاتا ہے ۔ یہ مناظر بے شُمار مرتبہ دیکھنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ بکرے کے کانوں کا اصل مقصد کیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ بکرے سماعت وغیرہ کا کام بھی انہی کانوں سے لیتے ہوں لیکن خدا لگتی کہیے تو اس کا واضع ثبوت ہمارے سامنے کبھی نہیں آیا ۔ ہم نے ان کے کانوں کا ہمیشہ وہی استعمال دیکھا ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ۔بعض اوقات تو ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی ضدّی قسم کا قصائی کسی اڑیل بکرے کو کان سے پکڑ کر اس شدّت سے گھسیٹتا ہے کہ ہمیں خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ ابھی اس قصائی کے ہاتھ میں صرف کان ہی رہ جائے گا اور بکرا علیحدہ ہوجائے گا ۔ چنانچہ ہم بڑے اشتیاق سے یہ متوقع منظر دیکھنے کو رک جاتے ہیں۔اس دوران ذہن میں آتا ہے کہ ہم نے ’’ کن ٹُٹّے ‘‘ انسان تو کئی دیکھے ہیں آج کن ٹٹّا بکرا بھی دیکھیں گے لیکن خلافِ توقع ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ میرے خیال میںکان بڑا مضبوط عضو ہے جتنا مرضی کھینچیں یہ ناصرف ٹوٹتا اکھڑتا نہیں بلکہ اس کا سائز بھی اتنا ہی رہتا ہے ۔ یادش بخیر ! زمانہ طالب علمی میں جس تسلسل اور شدّت کے ساتھ اس ناچیز کے کان کھینچے گئے تاریخ ِ عالم میں شاید ہی اس جیسی کوئی دوسری مثال موجود ہو ۔ ہمارے قابلِ احترام اساتذہ کرام میں درس و تدریس کے حوالے سے کئی دوسری خوبیاں بھی ہوں گی جو بوجوہ ہمیں نظر نہیں آسکیں لیکن ان کے ایک کمال کے ہم بخوبی و ’’ مضروبی ‘‘ واقف ہیں اور وہ ہے طلباء کے کان کھینچنا ۔ اللہ پاک ہمارے اُن نابغہ روزگار اساتذہ کی مغفرت فرمائے( جو شاید بوجوہ ممکن نہیں ) انہوں نے اس وصف کو ایک فن کا درجہ دے دیا تھا ۔اُن دنوں نالائق ( اور لائق ) طلباء کو معمولی سرزنش سے لے کر ’’ سزائے موت ‘‘ تک کی جُملہ سزائیں کانوں کے ذریعے سے ہی دی جاتی تھیں ۔کان مسلنے اور مروڑنے کی باقاعدہ درجہ بندی تھی۔ ایک واضع ورائیٹی موجود تھی ۔ پڑھائی کے حوالے سے ’’ سنگین جرائم ‘‘ میںملوّث طلباء کے کان اس انداز سے مروڑے جاتے کہ وہ اگلے لمحے مُرغِ بسمل کی طرح پھڑپھڑانے لگتے ۔ ایسے میں ایک سٹیج ایسی بھی آتی کہ بدقسمت طالب علم موت کی خواہش کرنے لگتا ۔۔۔گویا ’’’ موت آتی ہے پر نہیں آتی ‘‘ والی کیفیت طاری ہو جاتی ۔اکثر اوقات کان کھنچائی کے عمل کے دوران ایسے مراحل آتے کہ ہمیں لگتا کہ آج کانوں کے بغیر ہی گھر جائیں گے ۔ ہمارے کانوں کے ساتھ اس ’’ مہربانہ ‘‘ سلوک کے ذمہ دار صرف اساتذہ کرام ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سلسلہ ہمارے والدِ محترم تک بھی جاتا تھا ۔ گھر میں ہم سے جب بھی کوئی لغزش ہوتی ( اور یہ ہر دوسرے لمحے کی بات تھی ) تو والد بزرگوار کا ہاتھ سیدھا ہمارے کان پر جاتا ۔ کان کھینچنے کے حوالے سے ہمیں لگتا تھا کہ ہمارے گھر اور سکول میں ایک خاموش سا مقابلہ چل رہا ہے ۔ چنانچہ اس عرصے میں جس تواتر اور شدت کے ساتھ ہمارے کان کھینچے گئے اگر اس سے ان کے سائز میں کوئی فرق پڑ سکتا تو ہمیں یقین ہے کہ ہم بکرے اور گدھے وغیرہ کی کسی اور خوبی کی تو نہیں البتہ ان کی ’’ دراز گوشی ‘‘ کا مقابلہ ضرور کر لیتے ۔ انہی دنوں ہمیں لگتا تھاکہ ہمارے کان کی باریک ہڈّی مسلسل تختہ مشقِ ستم رہنے کے بعد تقریباً غائب ہو گئی ہے ۔ ۔۔یعنی ’’ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ‘‘ والی بات لگتی تھی ۔۔۔۔ بالکل کسی پروفیشنل باکسر کے ناک کی ہڈی کی طرح جو مسلسل گھونسے پڑنے کی وجہ سے چپٹی سی ہو کر ماس کا حصہ ہی بن جاتی ہے ۔ ۔ کان پرگرفت کرنا والد صاحب کا فیورٹ مشغلہ تھا ۔ عام حالات اور نارمل صورتِ حال میں بھی اگر کہیں ہمیں ساتھ لے جانا مقصود ہوتا تو وہ ہمیں ’’ احتیاطاً ‘‘ کان سے ہی پکٹرتے۔ ایسے کسی موقعے پر اگر کبھی ہم احتراماً بازو یا ہاتھ وغیرہ آگے کردیتے تو وہ ملائمت سے اسے پیچھے کر دیتے اور اس کے ساتھ ہی کان پر گرفت اور بھی سخت ہو جاتی ۔ اس عیدِ قرباں کے مبارک موقع پر میں نے ایک بار پھر بکروں اور کچھ دیگر جانوروں کو کانوں سے پکڑ کر بڑی شدّت کے ساتھ کھینچنے گھسیٹنے کے کئی بے رحمانہ مناظر دیکھے تو اپنے عہد ِرفتہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تو ہم نے ’’ مار نہیں پیار ‘‘ جیسی تحریک چلا کر معصوم بچوں اور اُن کے کانوں کو اساتذہ کے عتاب سے محفوظ کر لیا ہے لیکن ان معصوم بے زبان جانوروں کے بارے میں کون سوچے گا جن کے ساتھ رحم بھرا سلوک ہماری دینی تعلیمات کا حصّہ ہے ۔