اپوزیشن جماعتوں کے جس اتحاد کا حکومت مخالف جماعتوں کو شدت سے انتظار تھا وہ بالآخر اتوار کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے معرض وجود میں آ گیا۔ ایسا اتحاد اپوزیشن کی صفوں میں عدم تعاون اور غیرسیاسی قوتوں کی کاوشوں کی بنا پر نہیں بن پا رہا تھالیکن مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں۔ میاں نوازشریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو اور چھوٹے صوبو ں کی قومیت پرست جماعتوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کو ایک صفحے پر لانے کا کریڈٹ میاں نوازشریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کو جاتا ہے۔ قبل ازیں اتحا د بنانے کی کوششیں اسی بنا پر سبوتاژ ہوتی رہیں کہ اپوزیشن کے مطابق احتساب کے نام پر انتقام حد سے تجاوز کر گیا۔ شاید کسی حد تک بعداز خرابی بسیا ر اپوزیشن جماعتوں کو احساس ہواکہ وہ جس انداز سے چل رہے ہیں اس سے عوام میں اپنی ساکھ کھوتے جا رہے ہیں لہٰذا اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو وطن عزیز سے جمہوریت کا جنازہ نکل جائے گا اور عوام بھی طوعاــوکرہاً ڈکٹیٹرشپ نما صورتحال سے سمجھوتہ کر لیں گے۔ یقینا اپوزیشن لیڈروں میں نوازشریف نے میلہ لوٹ لیا ۔ قریبا ً ایک گھنٹہ طویل ان کا خطاب انتہائی دوٹوک تھا، انہوں نے بلا کم وکاست جارحانہ انداز میں گفتگوکی۔ وزیر اعظم کے مشیروں نے اے پی سی سے ایک دن پہلے اعلان کر دیا کہ نواز شریف نااہل ہو چکے اور قانون کے بھگوڑے ہیں، انہیں اے پی سی میں تقریر کرنے اور اسے ٹی وی کوریج کی اجازت نہیں دی جا سکتی لیکن اس با ت کو سراہنا پڑے گا کہ اگلے ہی روز وزیراعظم عمران خان نے حقیقت پسندانہ جمہوری فیصلہ کیا کہ نوازشریف کو تقریر کرنے دیں اسی طرح ان کے جھوٹے دعوے خود ہی عوام کے سامنے ا یکسپوز ہونگے۔ اتوار کو اے پی سی سے واضح ہو گیا ہے کہ اب یہ دو متحرک جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا اتحاد نہیں بلکہ ملک کی قریباً تمام اپوزیشن جماعتیں عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف صف آرا ہو گئی ہیں۔ اے پی سی میں بعض بڑے کلیدی فیصلے ہوئے ہیں۔ اگلے ماہ سے تحریک، دسمبر میں بھرپور جلسے، جنوری میں لانگ مارچ اور مناسب وقت پردھرنا اور پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد،لیکن محض فیصلوں کے اعلان کی بنیاد پر توقع رکھنا کہ اپوزیشن مو جو دہ حکومت کوفارغ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی فی الحال دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ ان فیصلوں پر دیوار سے لگی اپوزیشن کے لیے عمل درآمد کرنا بھی خاصا کٹھن ہو گا، اس کے لیے جو قربانیاں مطلوب ہونگی اس کے لیے کیا اپوزیشن رہنما تیارہیں؟۔ بہرحال کچھ باتیں تو واضح ہو گئی ہیں کہ جس طرح پہلے اپوزیشن رہنما کوڈ ورڈز میںفوجی قیادت کو للکارتے رہتے تھے اور میڈیا کے ناظرین اور قارئین مقتدراداروں، خلائی مخلوق ،محکمہ زراعت قسم کی اصطلاحات سنتے تھے، بالخصوص نوازشریف اور دیگر مقررین کے خطاب اور اس سے دو روز قبل پہلے ہونے والی پاکستان بار کونسل کی اے پی سی کے بعد ،کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور الفاظ کے گورکھ دھندے میں پڑے بغیریہ کہہ رہے ہیں کہ خود فوج کو اپنے آئینی اور منصبی ذمہ داریوں تک محدود رکھنا چاہئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے حال ہی میں ملکی سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے ملاقات کی جس میں عسکری قیادت نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے پر زور دیا اور واضح کیا کہ فوج کاملک میں کسی بھی سیاسی عمل سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق نہیں اور اس کے علاوہ الیکشن ریفارمز، نیب، سیاسی معاملات میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں، یہ کام سیاسی قیادت نے خود کرنا ہے۔ واضح رہے آل پارٹیز کانفرنس سے پہلے ہونے والی اس ملاقات کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ اب انکشاف ہونے کے بعد بتایا جا رہا ہے کہ یہ میٹنگ گلگت بلتستان کے انتخابات اور اسے صوبہ بنانے پر سیاسی اتفاق رائے کے لئے تھی۔ میاں نوازشریف کے خطاب میں یہ سبق مضمر ہے کہ میاں صاحب پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں جنہیں اپنی پارٹی کا بھرپور اعتماد حاصل ہے۔ ایک اور بات بھی واضح ہو گئی کہ میاں صا حب اور ان کی جما عت نے شہبازشریف کی نیم دروں نیم بروں لائن کو با لآخر مسترد کر دیا ہے۔ اس سے یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ عدالتوں کے ذریعے سیا سی معاملات کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کے یہ کہنے سے کہ اے پی سی ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی ہے، سب کرپٹ ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں، معاملات حل نہیں ہونگے۔ حکومت کے تمام تر انتظامی اور تعزیری ہتھکنڈوں کے باوجود اے پی سی کا ہو جانا ایک کرشمے سے کم نہیں ۔ میاں نوازشر یف کی اصل طا قت بھی یہی ہے کہ بالآخر دو سال کی خاموشی کے بعد انہیں بلا کم وکاست اپنے دل کی بات کہنی پڑی۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والا لیڈر جو اسٹیبلشمنٹ کی ہی پیداوار سمجھا جاتا تھا اب اسی اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہا ہے۔ اپریل 1993ء میں جب میاں نوازشریف نے جنرل ضیاء الحق کی ترامیم سے حاصل کردہ اختیارات سے لیس انتہائی طاقتور صدر غلام اسحق خان کو یہ بیان دے کر للکارا کہ ’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ سب کو حیران وششدر کردیا تھا اور اس کی پاداش میں انہیں معزول کر دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کی وزارت عظمیٰ بحال کر دی لیکن ان کی سابق مربی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں چلنے نہیں دیا، بعدازاں عام انتخابات ہار گئے۔ 1997ء میں پھر نواز شریف عام انتخابات میںکامیاب ہو کر دوسری بار وزیر اعظم بن گئے لیکن بھاری مینڈیٹ سے سرشار نوازشریف جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں 1999ء میں ایوان اقتدار سے جیل پہنچ گئے پھر جلاوطن ہو گئے۔ 2006ء میں چارٹر آ ف ڈیموکریسی پر بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے دستخط ہونے کے بعد امید تھی کہ معاملات خوش اسلوبی سے چلیں گے لیکن اس مرتبہ 2016ء میں نوازشریف ’’پاناما لیکس ‘‘ کی زد میں آ گئے اور 2017ء میں انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ دیکھا جائے تومیا ں صاحب اور زرداری صاحب قسمت کے دھنی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی ہر سیاسی حکومت کو کرپشن کے الزام میں ہی معطون کیا گیا۔ عمران خان بھی نیب کے استرے سے لیس اور احتساب کے نام پر انتقام کی روش پر سختی سے عمل پیرا ہیں، انہیں یہ رٹ لگانے کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، سب کرپٹ افراد کو جیلوں میں ڈالوں گا کے بجائے اپوزیشن سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ نو ازشریف کو بھی شہباز شریف کو آگے کرنا چاہیے جس کے تحت مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی راہ ہموار ہو۔ صاف شفاف بلا امتیاز احتساب، قانون کی حکمرانی ہو اور جمہوری اقدار کا پاس کیا جائے۔ فی الحال تو اپوزیشن اتحاد نے عمران خان کی حکومت کو دس دن کا نوٹس دیا ہے، اکتوبر میں تحریک چلانے کا بھی پروگرام ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی جائے گی۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے فورم سے پاک فوج کے سیاست میں رول پر کڑی تنقید کی گئی ہے بالخصوص چھوٹے صوبوں کی جانب سے۔ وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کو مزید خلفشار سے بچایا جائے، اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ فوج کے آئینی اور منصبی رول کو ہی یقینی بنایا جائے۔ نواز شریف نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا، نواز شریف نے اپنے خطاب میں فوج کے کردار پریہ فقرہ چست کیا کہ اب تو ریاست کے اوپر ریاست ہے۔ بہتر ہوتا کہ اس قسم کے ریمارکس سے اجتناب برتا جاتا۔