اللہ کی آخری کتاب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ خلق الانسان ضیعفاً کہ انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ نشہ جوانی کا ہو یا نشہ اپنے زور بازو کا یا کسی شعبے میں شہرت کا ہو یا اپنے مال اسباب کا ہو مگر اقتدار کا نشہ سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے مگر انسان کواپنے ضعف کا ادراک کب ہوتا ہے جب اس سے وہ طاقت چھن جاتی ہے جس پر وہ اتراتا تھا۔ یاس یگانہ چنگیزی نے شعر کی زبان میں اس حقیقت کو ذہن نشیں کرانے کی نہایت موثر کوشش کی ہے: خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا حال کو ماضی میں بدلتے دیر نہیں لگتی اور اقتدار آنی جانی شے ہے۔ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر بعض ذمہ دار صحافی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی صحت کے بارے میں ’’مصدقہ‘‘ ذرائع سے تشویش ناک خبریں دے رہے تھے مگر بوجوہ تاخیر ہوتی رہی۔ یہ وقت ’’باعث تاخیر‘‘ معلوم کرنے یا اس پر تبصرہ و تجزیہ کرنے کا نہیں۔ یہ وقت دعا اور موثر ترین علاج کا ہے۔ میاں نواز شریف کی بیماری خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ انسانی جسم میں خون کے سفید خلیے قریباً چار پانچ لاکھ ہوتے ہیں، وہ ان کے 16ہزار تک پہنچ گئے، ہسپتال میں علاج ہوا تو 50ہزار تک اوپر چلے گئے مگر پھر یکدم وہ چھ سات ہزار تک نیچے گر گئے۔ سروسز ہسپتال کے پرنسپل ایاز محمود کی سربراہی میں قائم چھ رکنی بورڈ نے تین روزہ سر توڑ کوشش کے بعدمیاں نواز شریف کی بیماری کی تشخیص کر لی ہے۔ حکماء درست تشخیص کو پچاس فیصد علاج قرار دیتے ہیں۔ اس بیماری کا طویل اور مشکل انگریزی نام ہے جس کا مخفف (آئی ٹی پی) ہے۔ اس سے مراد ہے جسم کے مدافعتی نظام کے بگڑنے سے خون کے بہائو میں بدنظمی کا پیدا ہو جانا۔ خراب دفاعی نظام خون کے خلیوں کو درہم برہم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ڈاکٹروں کو امیدہے کہ چند دنوںمیں میاں صاحب کا دفاعی نظام درست ہو جائے گا۔بیماری کسی کی ہو اس پر حزب اقتدار یا حزب اختلاف کسی کو سیاست زیب نہیں دیتی۔ میاں نواز شریف کی سریس بیماری کے باوجود ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جس طنز اور نشتر زنی سے کام لیتی رہی ہیں وہ انہیں بحیثیت مشیر اطلاعات اور بحیثیت ڈاکٹر زیب نہیں دیتا۔ اس دوران پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے مختلف مواقع پر نہایت ہمدردانہ ارو سنجیدہ لب و لہجے میں بات کی جو قابل تحسین ہے۔ دراصل ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور پنجاب حکومت کے کارپردازوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اگلے لمحے بنی گالہ کے ایوان بالا سے کیا فرمان جاری ہونے والا ہے۔ ایک طرف انسانی ہمدردی کے تحت مریم نواز کو جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے جہاں معلوم ہوا کہ انہیں بھی علاج کی ضرورت ہے۔ڈاکٹروں نے ان کے مختلف ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ٹیسٹ ابھی جاری تھے کہ بالکل ناقابل یقین طور پر رات 3بجے جیل حکام مریم نواز کو واپس جیل لے جانے کے لئے پہنچ گئے انہوں نے کہا کہ مریم نواز کو واپس جیل لے جانے کے لئے اوپر سے حکم آیا ہے۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا کہ ادھورے ٹیسٹوں کے ساتھ مریض قیدی کو واپس بھیجنا مناسب نہیں۔ تاہم جیل کا عملہ اپنی بات پر مصر رہا اور بالآخر طلوع آفتاب کے بعد انہیں واپس جیل لے کر چلا گیا۔ شاعر نے تو کہا ہے کہ ع ہر لرزش صبا کے کہے پر نہ جائیے مگر اوپر بھی فیصلے Momenet to momentہوتے ہیں۔ جو ہر لرزش صبا کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ کیونکہ کل شب رفتہ مریم نواز کو دوبارہ والد کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اللہ نے ہمیں جو معمولی سی طاقت گفتار یا جرأت اظہار عطا کی ہے۔ اسے ہم ہمیشہ جوابدہی کے احساس کے ساتھ بروئے کار لاتے ہیں۔ طبیعت کا گداز ایسا ہے کہ کوئی امیر ہو یا غریب جو بھی مقیدو مجبور ہوتا ہے اس کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ میاں نواز شریف جدہ میں ایام جلاوطنی گزار رہے تھے تو فقیر نے جنرل پرویز مشرف کے پرہیبت دور میں میاں صاحب کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے کئی کالم لکھے میاں صاحب واپس آئے تو انہوں نے اسلام آبادمیں کالم نگاروں کے ساتھ ایک ملاقات رکھی مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے وہ تادیر شکریہ ادا کرتے رہے۔ مگر جب وہ پھر حکمران بنے تو ہم ان کی بعض پالیسیوں سے کھلم کھلا اختلاف کرتے رے حتیٰ کہ اس زمانے کے میرے ایک کالم یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ اس میں میاں صاحب پر سخت تنقید تھی۔ یوں تو ساری تاریخ اسلام انسانی ہمدردی کے تابناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ تاہم تاریخ یروشلم صلاح الدین ایوبی کی جوانمردی ‘ بہادری ‘ جرأت مندی اور انسانی ہمدردی کے بارے اس دور کا مغلوب یورپ رطب اللسان تھا اور آج بھی مغرب صلاح الدین ایوب کی خوبیوں کا فراخ دلی سے اعتراف کرتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں یروشلم فتح کر کے اسلامی عظمت کا پھر لہرا لہرا دیا۔ تیسرے صلیبی حملے کی خود شیر دل کنگ رچرڈ نے قیادت کی اور یروشلم کا قبضہ حاصل کرنے کے لئے کوشش کی۔ اس محاصرے کے دوران جب صلاح الدین کو معلوم ہوا کہ رچرڈ بیمار ہے تو اس نے اپنے طبیب خاص کو ادویات کے ساتھ رچرڈ کے علاج کے لئے بھیجا۔ یہ 1192ء کا واقعہ ہو گا۔ اسی طرح جب اس وسیع القلب فاتح کو معلوم ہوا کہ رچرڈ کا گھوڑا زخمی ہو گیا ہے تو اس نے کنگ کو دو تازہ دم گھوڑے بھجوائے تاکہ وہ کسی دشواری کے بغیر جنگ لڑ سکے۔حکمرانوں کے لئے یہ قابل تقلید مثال ہے۔ اقتدار کے نشے کو دو چیزیں حد اعتدال پر رکھتی ہیں ایک عبودیت اور دوسری جمہوریت۔ عبودیت سے مراد ہے رب کے سامنے جوابدہی اور جمہوریت سے مراد ہے عوام کے سامنے جوابدہی ۔ میاں نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے سلسلے میں پھیلی ہوئی خبروں یا افواہوں پر اس وقت کوئی تندوتیز تجزیہ ایک ظالمانہ عمل ہی کہلائے گا کیونکہ میاں صاحب کی بیماری کو تمام اطباء نے تشویش ناک قرار دیا ہے۔ انسانی ہمدردی کے علاوہ کروڑوں ایسے پاکستانی ہیں جنہوں نے میاں صاحب کو ووٹ دیا ہے اور ابھی تک میاں صاحب کی سیاست سے وابستہ ہیں بلکہ بہت سے دوسری پارٹیوں کے ووٹر بھی میاں صاحب والے پرانے پاکستان کی واپسی کے متمنی ہیں۔ یہ عبرت کا موقع اور دعا کا وقت ہے۔ دعا وہ قوت ہے جس کے بارے میں حضور نبی کریمؐ فرمایا ہے کہ تقدیر کو اگر کوئی شے ٹال سکتی ہے تو وہ دعا ہے۔ جس آیت کا میں نے آغاز میں حوالہ دیا ہے اس آیت کے پہلے حصے میں رب ذوالجلال نے ایک بڑی لطیف بات ارشاد کی ہے۔ فرمایا اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘ صاحبان اقتدار کے لئے اس میں بڑا واضح سبق ہے کہ ان سمیت سارے انسان کمزور پیدا کئے گئے ہیں۔