عجیب فکری مغالطے پیدا ہو رہے ہیں۔ میں ہر بار ان پر گفتگو کا آغاز کرنے کا سوچتا ہوں‘ پھر ڈر کر رک جاتا ہوں۔ اس وقت بھارت نے جو صورت حال پیدا کر دی ہے۔ وہ خود کئی سوال اٹھا رہی ہے۔ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے جنگ کا طبل بجا دیا جائے۔ دو سال پہلے سے یہ بات کہی جا رہی تھی۔ کہ انتخابات کے قریب مودی پاکستان کے خلاف جنگ جویانہ فضا پیدا کرے گا اور اس کے بس میں ہوا تو کوئی مہم جوئی بھی کرنے سے باز نہیں رہے گا۔ یہ بات اتنے تسلسل اور اعتماد سے کہی جاتی رہی ہے کہ لگتا ہے کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ گویا سکرپٹ کے عین مطابق ہے ۔میں اکثر اوقات بیسوی صدی میں انسانی ذہن کی گہرائیوں میں اترنے والے سب سے اولیں ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے ان خیالات کو ذرا شک سے دیکھتا تھا جو اس نے جنگ عظیم کی فضائوں میں کہے تھے کہ آپ جمہوریت سے اور کیا توقع کر سکتے ہیں۔ تباہی اس کی گھٹی میں ہے۔ حالات نے تو خیر اس وقت ہی اس بات کو صحیح ثابت کر دیا تھا کہ انسانی فطرت کے اندر تباہی کا ایک عنصریہ موجود ہے‘ تاہم اب تو بعض اوقات خیال آتا ہے کہ وہ یہ کہنے میں سچا تھا کہ مغرب کی نام نہاد جمہوریت کے اندر انسانیت کی تباہی کا عنصر مضمر ہے۔ وہ تو خیر ذرا گہری بات ہے۔ اگرچہ اس سے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اقبال‘ رینے گینوںوغیرہ سب لوگوں نے جمہوریت پر جو اپنے اپنے انداز سے نکتہ چینی کی تھی۔ وہ یونہی نہ تھی۔ آخر میں یہی بات ماننا پڑتی تھی کہ دنیا میں انسانوں کے بنائے نظاموں میں سب سے کم خراب یہی جمہوریت ہے شاید اس لئے بھی کہ گزشتہ صدی نے اس جمہوریت کی دشمنی میں جو نظام ہائے فکر بھی رائج کئے وہ اس سے بھی بدتر نکلے۔ ہٹلر اور مسولینی کی فسطائیت اور سٹالن کی کمیونزم نے تو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس وقت بھارت کے رویے نے بالکل سامنے کے سوال اٹھا دیے ہیں۔ کیا دنیا میں جب بھی حکمرانوں کے انتخاب کا وقت آئے گا۔ انسانیت کو اسی طرح گمراہ کیا جاتا رہے گا۔ کیا جمہوریت اس کا نام ہے کہ اقتدار میں آنے کے لئے آگ اور خون کا میدان بھی گرم کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس سے دریغ نہ کیا جائے اور جھوٹ کی زمینوں پر حکومت کرنے کے حق کی بنیاد رکھی جائے۔ کیا خیال ہے یہ نظام انسانیت کو پنپنے دے سکتا ہے۔؟ گزشتہ تین چار برسوں سے تو دنیا خاص طورایک بڑی تشویش میں مبتلا رہی ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ عوام ہمیشہ درست فیصلہ کرتے ہیں ‘ وہ انتہا پسندی کو مسترد کر دیتے ہیں اس طرح انتخابات کے ذریعے ایک طرح سے ماڈریٹ لوگوں کی حکومت آ جاتی ہے۔ مغرب والوں کی اصطلاح میں انتہا پسند رائٹ اور انتہا پسند لیفٹ پٹ جاتا ہے اور اس پراسس میں اس کے غبارے سے ہوا بھی نکل جاتی ہے۔ تاہم بھارت میں مودی اور امریکہ میں ٹرمپ کے انتخابات کے بعد یہ خیال دم توڑنے لگا۔ یورپ کے کئی ممالک میں انتہا پسندی طاقت پکڑی نظر آئی۔ ہر انتخاب پر شور اٹھتا دیکھنا دنیا میں نئے مودی اور نئے ٹرمپ پیدا ہو رہے ہیں۔ اس دنیا کا کیا بنے گا۔ دوسری طرف ہمارے ہاں ایک اس سے الٹ بیانیہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ وہ یہ کہ جمہوریت ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ آپ سوچیں گے یہ کون سی نئی بات ہے۔ اس میں نئی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کہتے تھے۔ ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ بھائی تم یہ کس چکر میں پڑے ہو۔ آپ صرف افراد اور معاشرے پر توجہ دیں۔ اسلام نافذ کرنے کا نعرہ ترک کر دیں۔ جمہوریت کے ذریعے سے جو قیادت آئے گی‘ وہ آپ کے معاشرتی تقاضوں کا ساتھ دیتے ہوئے خود ہی ایک ایسا حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیدے گی جو اسلام کے خلاف نہیں ہو گا۔ خاص کر تیونس میں رشید الغنوشی کے تجربے نے انہیں شہہ دی ہے وہ گویا پولیٹیکل اسلام کو چھوڑ کر اب مسلم ڈیمو کریٹ ہونے کو فوقیت دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ فکری مباحثہ ایک طویل عرصے سے چل رہا ہے مگر اس نے اس وقت جتنی طاقت پکڑی ہے کہ بعض اوقات یہ گمان گزرتا ہے کہ جو ملک دین کے نام پر بنایا گیا تھا وہاں اب صرف ایک ایسی جمہوری حکومت آئیڈیل بن جائے گی جو زیادہ سے زیادہ سیکولر اور لبرل حکومت کہی جا سکے گی۔ یہ بحث ان لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔ ہے جو بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور یوں لگتا ہے ہم ایک بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اس بحث کی ایک اور جہت بھی ہے۔ وہ بھی بڑے مقدس تناظر میں چلائی جاتی ہے۔ خطے میں جہاد کی فضا نے نئے سوالات اٹھا دیے ہیں یہاں اسلامی حکومت قائم کرنے والے اور تلوار اٹھا کر غلبہ اسلام کا نعرہ لگانے والے گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ مسلمان ڈر گئے ہیں‘ وہ کہتے ہیں ‘ ہم نے جب سیاسی اسلام کی بات کی تھی تو وہ قانونی اور آئینی طریقے سے اسلامی حکومت قائم کرنے کا عزم تھا۔اس کا جواب آتا ہے۔ اس کا انجام آپ نے افغانستان میں دیکھ لیا۔ مصر میں دیکھ لیا‘عراق و شام میں دیکھ لیا۔ اس سے پہلے الجزائر میں بھی اس کے نتائج دیکھ لئے۔ غلبہ اسلام کا ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے کہ تلوار اٹھا لی جائے اور اس کے زور پر اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ اس نے جمہوری فریم ورک کے اندر کام کرنے والی اسلامی تحریکوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دشمن اس بات کی بھی کوشش کر رہا ہے کہ جہاد اور دہشت گردی کے ڈانڈے آپس میں ملا دیے جائیں۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ ان جہادی قوتوں کے اندر بھی ایک اور سوال پیدا کیا ہے۔ وہ یہ کہ فتح کے بعد اسلامی حکومت قائم کی جائے یا انتظار کر لیا جائے کہ کب مکمل فتح نصیب ہوتی ہے۔ یہ جو طالبان‘ القاعدہ اور داعش کے درمیان نظریاتی بحثیں ہیں۔ وہ یہی سوال اٹھا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے داعش نے غلطی کی کہ شام و عراق میں خلافت کا اعلان کر دیا۔ داعش کا مطلب یہی تو ہے دولت اسلامیہ عراق و شام۔ اس دولت اسلامیہ کو انگریزی میں آئی ایس یا اسلامک سٹیٹ کہتے ہیں۔ غلطی یہ بتائی جاتی تھی کہ سامراج نے اسلامی ریاست یا خلافت کا اعلان کر کے اسلامی قوتوںکو ایک جغرافیے تک محدود کر دیا۔ دنیا بھر سے اسلامی انقلاب کے حامی دوڑ دوڑ کریہاں آنے لگے۔ پھرسب کو چن چن کر مار دیا گیا۔ ان کے مقابلے میں جن قوتوں کو میدان میں اتارا گیا‘ وہ بھی اسلام کا نام لیتی تھیں۔ النصر وغیرہ القاعدہ ہی کی شکلیں تھیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت میں جو جہادی تنظیمیں متشکل ہو رہی ہیں اور جنہیں القاعدہ برصغیر کہتے ہیں‘ وہ حکومت قائم کرنے کو غلطی سمجھ رہے ہیں۔ بھارت اچھی طرح سمجھتا ہے یہ کون لوگ ہیں۔ اس میں بھارت کی مسلم عسکری تنظیم سمّی ہے۔ روہنگیا مسلمان ہیں‘ بنگلہ دیشی لوگ ہیں۔ یہ گویا اب حکومت قائم کرنے کے حامی نہیں۔ اسلام کے نام پر سردھڑ کی بازی لگانے کا عزم رکھتے ہیں بس ایک نازک سی بات سن لیجیے۔ وہ کہتے ہیں کشمیر کے شہیدوں کو پاکستانی پرچم یا کسی بھی قومی پرچم میں دفن کرنے کی ضرورت نہیں‘ انہیں کیوں نا کلمہ طیبہ کے پرچم میں دفن کیا جائے۔ بات بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ مودی جیسے لوگ اس خطرے کو سمجھتے ہیںمگر اس کا جواب طاقت سے دینا چاہتے ہیں۔ جمہوریت‘ خلافت ‘ جہاد‘ دہشت گردی‘ اسلامی ریاست گوریلا جنگ سیاسی اسلام مسلم ڈیمو کریٹ‘ نظریہ پاکستان‘ سیکولرازم یہ سب بحثیں ایک بالکل مختلف اور خطرناک تناظر میں ابھر رہی ہیں۔ آج جب کشمیر میں خون بہہ رہا ہے اوربھارت کا عفریت آگ اگل رہا ہے۔ ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اس فکری بھنور میں سے کیسے نکلیں جو ہماری یکسوئی کے لئے لازمی ہے۔ یہ سارے سوالات وہ ہیں جن سے ہم شعوری یا لاشعوری سطح پر نبرد آزما ہیں اور نہیں سمجھ پا رہے کہ : ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم غالب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا ہمارا دشت امکان جو بھی تھا یہی نظریہ پاکستان تھا۔ جمہوریت تھی‘ خلافت کا خواب تھا۔ ریاست مدینہ تھی‘ ہم نے قومی ریاست کے تصور کو بھی قبول کیا ہوا تھا۔ اب لگتا ہے ہر ایک پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور ہر ایک کو الگ الگ کہا جا رہا ہے۔ یہ بہت خطرناک صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔ اس کے بطن سے بعض اوقات فسطائیت نکلتی ہے۔ بعض اوقات انارکی جنم لیتی ہے۔ اور کبھی وہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ آدمی اپنی معاشرتی و تہذیبی اقدار کا بھی سودا کر بیٹھتا ہے۔ اس وقت تو رواداری میں ہر چند باتیںاشاروں کے طور پر لکھ دی ہیں۔ تقاضا اس بات کا ہے کہ ہم ان تمام باتوں کا ذرا گہرائی میں جا کر تجزیہ کریں۔ یہ بہت ضروری ہو گیا ہے جو کچھ اس خطے میں ہو رہا ہے یہ ہمارے اندر کا خلفشار ہے جس سے ہمیں نکلنا ہو گا۔