وزیر اعظم عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں جو تحریک کے ذریعے حکومت کو نکالنا چاہتی تھیں وہ خود اختلافات اور تضادات کا شکار ہو گئی ہیں، گویا کہ یہ غنچے بن کھلے ہی مرجھا رہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن،ٰ جن کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کو پی ڈی ایم کے بینر تلے اکٹھا کر دیا ،کو اپنی ہی پارٹی کے اندر شدید بغاوت کا سامنا ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ نے پارٹی کے سینئرہنمائوں مولانا محمد خان شیرانی، مولانا گل نصیب خان، مولانا شجاع الملک اور حافظ حسین احمد کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ فضل الرحمنٰ کہتے ہونگے کہ یہ سب کچھ حکومتی ریشہ دوانیوں اور سازش کا نتیجہ ہے۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہونگے لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اگر اپوزیشن حکومت کو نکال باہر کرنا چاہتی ہے تو پھر حکومت بھی انہیں نا کام کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی۔ مولانا کو حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنی چاہیے تھی۔ بہرحال مولانا کی اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے اور محض ان متذکرہ چارحضرات کے علم بغاوت بلند کرنے سے پارٹی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اصل مسئلہ اپوزیشن کے اندر مختلف معاملات پر باہمی اختلافات اور ایک صفحے پر نہ ہونا ہے۔ اپوزیشن کے اہداف کے بارے میں ایک ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ خواہش تو اپنی جگہ پر ہے کہ ہم نے موجودہ حکومت کو نکالنا ہے ،پہلے تو یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت ایک ماہ میں فارغ ہو جائے گی لیکن اب استعفوں، سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے واضح طور پر اختلاف موجود ہے۔ استعفوں کی ٹائمنگ بھی وجہ نزاع بنی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اکثر رہنما کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کے بعد استعفے یا دھرنا دینے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ اپوزیشن کی یہ سب سے بڑی جماعت سینیٹ کے انتخابات میں بھی حصہ لینا چاہتی ہے اور ضمنی انتخابات میں بھی۔ ادھر پیپلز پارٹی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ استعفے دے کر سندھ حکومت سے باہر آجائے گی خام خیالی لگتی ہے۔ اگرچہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں عملی طور پر ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ دوسری طرف عجیب کھچڑی پک رہی ہے۔ فنکشنل لیگ کے سیکرٹری جنرل محمد علی درانی مسلم لیگ ن کے پابند سلاسل صدر شہباز شریف سے ملنے جیل پہنچ گئے۔ ظاہر ہے کہ ان کی یہ ملاقات حکومت کی آشیرباد اور اجازت کے بغیر ممکن نہیں۔ محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کے پر زور حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے حق میں رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے ایک تنظیم مشرف لورز بھی بنائی تھی۔ ناقدین یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ موصوف کو اپنے اس مشن کے لیے اس وقت کی آئی ایس آئی سے خطیر رقم بھی ملی تھی۔ انہوں نے میاں شہباز شریف سے گرینڈ ڈائیلاگ کے حوالے سے بات کی ہے۔ شہباز شریف نے درست طور پر یہ کہا کہ اگرچہ وہ اس قسم کے ڈائیلاگ کے حامی ہیں اور خود بھی اس کا کہہ چکے ہیں تو وہ اب جیل میں بیٹھ کر کیا ڈائیلاگ کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پیر پگاڑا کی جماعت حکومت کی حلیف ہے۔ حسب توقع مولانا فضل الرحمنٰ اور مریم نواز نے گرینڈ ڈائیلاگ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ ادھر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ درانی کی شہباز شریف سے ملاقات کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ گویا کہ درانی صاحب کا جو بھی مشن تھا وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم بھی حکومت چھوڑنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ وہ اس بات پر ناراض ہے کہ ہمارے تحفظات کے باوجود حکومت مردم شماری کے نتائج جاری کرنے جا رہی ہے۔واضح رہے کابینہ نے چھٹی مردم شماری کے حتمی نتائج جاری کرنیکا فیصلہ کیا ہے، وفاقی حکومت نے مردم شماری پر وزرا کی کمیٹی بھی تشکیل دی ، لیکن اتحادی جماعت ایم کیوایم نے مردم شماری کے نتائج پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا، ایم کیو ایم کے رکن اور وفاقی وزیر امین الحق نے کابینہ میں اختلافی نوٹ رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ ایم کیو ایم 2017 کی مردم شماری اور اس پر ڈی لمیٹیشن بھی مسترد کرتی ہے، اور ایم کیو ایم فوری طور پر نئی مردم شماری کا مطالبہ کرتی ہے۔سربراہ ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی نے بھی مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس تناظر میں حکومت اپنے تئیں خوش نظر آتی ہے کہ اپوزیشن کی تحریک اپنے ہی تضادات سے بکھر رہی ہے اور پی ڈی ایم دم توڑ چکی ہے۔ دراصل اپوزیشن کے رہنمائوں نے مولانا فضل الرحمنٰ کی باتوں میں آکر اپنی حکمت عملی کے دوررس محرکات پر غور ہی نہیں کیا۔ مثلاً مولانا پی ڈی ایم کو ایک سیاسی جماعت کی طرح چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ یہ اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد ہے جس میں ہر سیاسی جماعت کا اپنا مخصوص نکتہ نگاہ اور نظریات ہیں اور بنائے اتحاد عمران خان کی چھٹی کرانا ہے۔ مثلاً مولانا جو خود پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں، استعفوں پہ ادھا رکھائے بیٹھے ہیں لیکن ہر رکن پارلیمنٹ کے لیے استعفیٰ دینا اور کچھ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایسا کرنا دعوئوں کی حد تک توٹھیک ہے لیکن عملی طور پر ایسے مرحلے پر جب حکومت مستحکم ہو یہ قابل عمل نہیں ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ منزل مزید دور ہو سکتی ہے۔ خود مسلم لیگ ن کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ مریم نواز میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر ہیں، کافی عقابی بن گئی ہیں اور لندن میں مقیم اپنے والد صاحب کی ہدایت پر ضرورت سے زیادہ آگے چلی گئی ہیں۔ ان کے والد کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ تقریریں بعض شخصیات کی تسکین قلب کے لیے تو اچھی ہونگی لیکن خود مسلم لیگ ن میں جو انقلابی جماعت نہیں ہے، خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ شہباز شریف کوجو اس طرز سیاست کے حامی نہیں ہیں یکسر سائیڈلائن کر دیا گیا ہے اور اب صاحبزادی کا طوطی بول رہا ہے۔ جہاں تک بلاول بھٹو کا تعلق ہے ان کا جوش خطابت اور ولولہ قابل قدر ہے لیکن آخری فیصلہ ان کے والد آصف علی زرداری ہی کریں گے اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ اپنی جماعت کو استعفوں کی آگ میں جھونک دیں گے۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سیاسی میدان میں متحارب جماعتیں ہی ہیں۔نواز شریف نے آصف زرداری کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اسے بھولے نہیں۔ جہاں تک پی ڈی ایم کے جلسوں کا تعلق ہے یہ حاضری اور جوش وجذبہ کے لحاظ سے تو کامیاب رہے لیکن آگے کیا کرنا ہے ،کچھ واضح نہیں۔