انٹرنیٹ کے سرچ انجن اب بھی آپکو ان رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصاویر تک پہنچا سکتے ہیں جس میں سنولائی ہوئی رنگت والے چہرے نفرت کے نیون سائن لگ رہے ہیں، ان کی آنکھوں میں خون اترا دیکھا جا سکتا ہے ،ان کے ہاتھوں میں تلواریں ،خنجر اور ترشول ہیں صاف لگتا ہے کہ یہ ہجوم کہیں ہلہ بولنے جا رہا ہے اس کے بعد کی تصاویر آج بھی مجھے دیکھنے کی ہمت نہیں ،کٹی پھٹی لاشیں ،زندہ جلائے جانے والوں کے کوئلہ بنے بدن ، یہاں وہاں پڑے انسانی گوشت کے لوتھڑے۔۔۔بھارتی گجرات میں مسلم کش فسادات کی ان تصاویر پر کسی کیپشن کی ضرورت نہیں ،بھارتی سرکار کی مان لی جائے تو 2002ء کے ان فسادات میں ایک ہزار افراد مارے گئے تھے اس بارے میں درجنوں تحقیقاتی رپورٹس اور کتابیں شائع ہوئی ہیں جن کا اک اک لفظ قاری کا ہاتھ پکڑ پکڑ اس مجرم تک پہنچاتا ہے جو اس وقت کا وزیر اعلیٰ اور آج کا وزیر اعظم نریندر مودی ہے۔ جب ہندو بلوائی مسلمانوں کی جلتی بلتی بستیوں میں شیطانی کھیل کھیل چکے ، تب ریاستی حکومت نے فوج طلب کی ،بھارتی آرمی چیف نے یہ ذمہ داری لیفٹیننٹ جنرل ضمیرا لدین شاہ کے سپرد کی ،اس جنرل نے ریٹائرمنٹ کے بعد لکھی جانے والی کتاب ’’دی سرکاری مسلمان‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ حکم ملتے ہی فوج کے دستے طیاروں کے ذریعے احمد آباد پہنچ گئے تھے لیکن وہ احمد آباد پہنچ کر بھی متاثرہ علاقوں میں نہیں پہنچ سکے کیوں کہ ریاستی حکومت نے ان کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کیا تھا ، فوج پورا ایک دن ایک رات ائیر پورٹ پرٹرانسپورٹ کا انتظار کرتی رہی ،ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل شاہ نے کہا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ جب ہم ائیر پورٹ پہنچیں گے توگاڑیاں ،سیل فون،مجسٹریٹ،پولیس ،گائیڈ ملیں گے لیکن ہمیں وہاں صرف ایک بریگیڈئیر منتظر ملا،اسی جنرل شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ وہ سیدھا وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچے تھے جہاں وزیر دفاع جارج فرنانڈس بھی موجود تھے انہوں نے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور وزیردفاع دونوں کو بتایا کہ انہیں کیا کیا چیزیں درکار ہیں لیکن پوری رات اور اگلا پورا دن انتظار میں گزر گیاجنرل شاہ اپنی کتاب میں گواہی دیتے ہیں کہ مقامی پولیس حملہ آوروں کا ساتھ دے رہی تھی یا لاتعلق کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی۔ رعنا ایوب ایک دلیر بھارتی صحافی ہیں، وہ بھارتی ادارے ’’تہلکہ ‘‘ سے منسلک تھیں جب انہیں گجرات فسادات کی راکھ کریدنے کا ٹاسک دیا گیا وہ راشٹریہ سوائم سنگھ کی نظریات سے متاثرایک امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ کی طالبہ کا روپ دھار کر مسلم کش فسادات کے دوران گجرات میں تعینات رہنے والے پولیس افسران، بیوروکریٹس سے ملیں،رعنا اس بھیس میں نریندر مودی تک بھی جا پہنچی تھیں،وہ ان سب سے ملیں اور ان سے ہونے والی گفتگو خفیہ کیمرے سے ریکارڈ کرتی رہیں لیکن ’’تہلکہ ‘‘ نے ان تہلکہ خیز حقائق کا بوجھ اٹھانے سے معذرت کرلی اور 2011ء میں یہ پروجیکٹ ہی بند کردیاجس کے بعد رعنا ایوب بھی تہلکہ سے علیحدہ ہو گئیں لیکن انہوں نے اپنا یہ کام آزادانہ طور پر جاری رکھا پھر رعنا نے یہ ساری روداد ’’گجرات فائلز ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں مرتب کر ڈالی لیکن اس تہلکہ خیز کتاب کو چھاپنے کی کسی ناشرمیں ہمت نہ ہوئی جس کے بعد رعنا نے خود ہی یہ کتاب شائع کی او ر نریندر مودی اور امیت شاہ کو چھوڑ کر سب کے انٹرویو چھاپ دیئے، ان دو انٹرویوز کے بارے میںرعنا کا کہنا ہے کہ اگربھارتی تحقیقاتی ادارے مجھ سے رابطہ کریں گے تو میں یہ انٹرویوز انکے حوالے کردوں گی اس کتاب میں اس وقت کے سیکرٹری داخلہ اشوک نارائن سے کی گئی گفتگو بھی موجود ہے جس میں رعنا کے کریدنے پر ریاست کے اہم ترین عہدے پر فائز یہ بیوروکریٹ کہتا ہے ’’بی بی! ان دنوں کا کیا پوچھتی ہو، ہمارے تو ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے تھے۔ مسلمانوں پر جن لوگوں نے حملے کئے ان کی قیادت مودی کے مشیر،ارکان اسمبلی اورسنگھ پریوار کے لیڈر کر رہے تھے ‘‘کتاب میں بھارت کے موجودہ وزیر داخلہ امیت شا کا بھی ذکر ہے جو ان دنوں ریاستی اسمبلی کے رکن اور گجرات فسادات کے الزام میں جیل میں تھے ،اشوک نارائن نے بتایا کہ میں نے اپنے نائب مسلمان افسر کی مدد کے لئے پولیس کمشنر کو فون کیا اسکا گھر ہندو بلوائیوں نے گھیر رکھا تھا پولیس وہاں پہنچی تو امیت شا بھی ہندو بلوائیوں کے ساتھ آن موجود ہوا اس نے پولیس افسر سے کہا کہ یہاں سب کچھ نارمل ہے تم واپس چلے جاؤ،اس پولیس افسر نے اس وقت تو میرے ماتحت کو بچالیا لیکن وہ کسی اور کی مدد نہ کرسکا، رعنا ایوب نے اسے مزید کریدنے کے لئے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ امیت شا تو ابھی جیل میں ہے! جس پر اشوک نارائن نے کہاوہ جلد باہر آجائے گا گجرات میں کوئی مائی کا لعل نہیں جو ان وزیروں مشیروں کے خلاف گواہی دے اور ایسا ہی ہو ۔ مجھے یہ سب سری لنکا کے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل شیوندرسلوااور ان کے اہل خانہ کی امریکہ میں داخلے پر پابندی کی خبروں سے یاد آیا،امریکہ نے انسانی حقوق کا’’چمپئن ‘‘ بننے ہوئے سری لنکا کے آرمی چیف کاامریکہ داخلہ بند کردیاہے ان پر الزام ہے کہ2009ء کی خانہ جنگی میں انہو ں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا یہ وہی جنرل سلوا ہے جس نے بھارت نواز تامل باغیوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی تھی اور علیحدگی پسند تحریک کی کمر توڑ دی تھی ،سری لنکا کے جغرافیے کی تبدیلی کی خواہش کو حسرت میں بدلنے میں پاکستان کابھی اہم کردار رہا ہے اس بغاوت میں پاکستان نے سری لنکا کی کمزور فوج کی مدد کی تھی اور اسے ’’نیپال‘‘ بننے سے بچالیا تھا جیسا الزام آج سری لنکن آرمی چیف پر ہے ویسا ہی امریکہ نے گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعدمودی پر لگاکراس کے امریکہ داخلے میں پابندی عائد کی تھی لیکن اب وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں’’بھارت کے باپو‘‘ ہیںیعنی باپو اپنے ہندو سپوتوں سے مل کر اپنے کمزور پڑوسی مسلمانوں کا قتل عام کرے تو جائزہے اور ایک جنرل اپنے وطن کا دفاع کرے تو وہ جنگی جرائم کامجرم ؟ ایک محبوب اوردوسرا معتوب !واہ رے امریکہ تیری کون سی کل سیدھی!