لوک سبھا کی 11 فبروری 2020ء کی کارروائی کے ریکارڈ سے حسب ذیل سوال اور جواب خوشی کا سبب ہوں گے بشرطیکہ بی جے پی قائدین بشمول وزیراعظم، وزیر داخلہ اور دیگر وزرائ￿ کے بیانات کے بارے میں قابل افسوس تبصرہ نہ ہوتا۔ سوال یوں ہے: (a) آیا کوئی تنظیم بنام ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کی شناخت ہوئی ہے اور کوئی زمرہ بندی وزارت اْمور داخلہ، نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) یا کوئی مرکزی ریاستی لا انفورسمنٹ ایجنسی، پولیس فورس یا کوئی سنٹرل یا اسٹیٹ انٹلیجنس اسٹرکچرز کی طرف سے کی گئی ہے؛ (b) آیا ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کی اصطلاح وزارت داخلہ یا دیگر لا انفورسمنٹ، انٹلیجنس ایجنسیوں کی فراہم کردہ مخصوص معلومات کی بنیاد پر مبنی ہے؛ (c) آیا وزارت امور داخلہ این سی آر بی یا کوئی دیگر لا انفورسمنٹ یا انٹلیجنس آرگنائزیشن نے ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کے مبینہ لیڈروں اور ممبرز کی کوئی فہرست ترتیب دی ہے؛ (d) آیا ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کے ارکان کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی سزا (اور خصوصیت سے آئی پی سی یا دیگر ایکٹس کے کن دفعات کے تحت) وزارت امور داخلہ یا کوئی دیگر لا انفورسمنٹ ایجنسی انٹلیجنس اسٹرکچر کی جانب سے زیرغور ہے؛ اور(e) اگر ایسا ہے تو اس کی تفصیلات؟ جواب : (a) تا (d) : اس طرح کی کوئی معلومات کسی بھی لا انفورسمنٹ ایجنسی کی طرف سے پیش نہیں کی گئی ہیں۔ ملک کو توڑنا؟ جب سے بی جے پی مئی 2019ء میں الیکشن کے ذریعے اقتدار پر واپس ہوئی، کئی ہندوستانی ایسا ماننے کی طرف مائل ہوئے کہ ہندوستان کی سالمیت خطرے میں ہے اور ایسے گروپس ہیں جو اس ملک کو توڑنے کیلئے سرگرمی سے کام کررہے ہیں۔ ان گروپوں کو مختلف وقتوں میں مختلف نام دیئے گئے… نکسلائٹس، ماؤسٹس، اسلام پسند دہشت گرد، اَربن نکسلز، وغیرہ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبہ کی جانب سے منظم مظاہرے کے بعد (جو مسٹر کنہیا کمار اور تین دیگر اسٹوڈنٹ لیڈرز کے خلاف غداری کے جھوٹے الزامات عائد کئے جانے کا سبب بنا) احتجاجی طلبہ کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ قرار دیا گیا۔ وہ لیبل بی جے پی کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے والے ہر گروپ پر تھوپا گیا۔ وہ لیبل سیاسی گفتگو میں بھی شامل کیا گیا، حتیٰ کہ خوش خلق وزیر خارجہ مسٹر ایس جئے شنکر نے بھی افسوس کی بات ہے کہ یہ اصطلاح استعمال کی۔ پلان میں نقص دہلی مقننہ کیلئے حالیہ اختتام پذیر انتخابات میں پی ایم نے دو ریلیوں سے خطاب کیا اور ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ پر لعنت و ملامت کی۔ اخبارات، ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا سائٹس نے ’گینگس‘ کی تصویریں دکھائیں۔ تاہم، ایک خامی رہ گئی۔ ’ٹکڑے ٹکڑے گینگس‘ کے ارکان ایک ہاتھ میں قومی پرچم تھامے ہوئے ہیں اور دوسرے ہاتھ میں ہندوستان کے دستور کی نقل! علاوہ ازیں، وقفے وقفے سے انھوں نے قومی ترانہ کافی جوش و خروش سے گایا! ان لوگوں کے بارے میں جو لفاظی کی گئی اور جو تصویریں میڈیا میں دکھائی دیں، ان میں ایک دوسرے سے تضاد ہے۔ عوام کے ہر گوشہ کو وہی یقین کرنا پڑا جو انھوں نے یقین کرنا چاہا۔ اب، مرکزی وزیر کا حیران کن بیان سامنے آیا ہے۔ بی جے پی کا کوئی لیڈر سامنے نہیں آیا کہ حالیہ مہینوں میں عائد کئے گئے اْن کے الزامات اور گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ میں وزیر موصوف کے بیان کے درمیان فرق کی وضاحت کی جائے۔ دائیں بازو کی آئیڈیالوجی کے تعلق سے کچھ بھی غیرمعمولی یا پوشیدہ طور پر غلط نہیں ہے۔ یہ بھی خلاف معمول نہیں کہ رائٹ ونگ لیڈرس کٹر ایقان رکھنے والے ہوتے ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب دائیں بازو کے قائدین اپنے مذہب کو سیاسی رنگ دیتے ہیں اور عوام کو مذہب کی بنیاد پر بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں (’میرا مذہب بمقابلہ تمہارا مذہب‘) جس سے دستور کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور سماجی ہم آہنگی میں خلل پڑتا ہے۔ بی جے پی نے بس وہی کچھ کیا ہے، اور گزشتہ چھ برسوں میں حکومت اور دیگر سرکاری اداروں میں ایسے اشخاص کو ذمہ دار بنادیا ہے جو نہ صرف محض مذہبی ہیں بلکہ ایسے اشخاص بھی ہیں جو اپنے مذہبی اعتقادوں کو ہتھیار بنائیں گے تاکہ عوام کے بڑے گوشوں میں خوف اور غیریقینی کیفیت پھیلائی جائے۔ جیسا کہ ڈاکٹر نیرا چنڈھوکے، سابق پروفیسر پولیٹیکل سائنس، یونیورسٹی آف دہلی نے لکھا ہے: ’’سکیولرازم کو جس چیز کے خلاف جدوجہد کرنا پڑتا ہے وہ سیاسی نوعیت کی طاقت ہے، اقتدار کو مذہبی باتوں سے جوڑ کر ہتھیار بنانا، مذہبی شناختوں کو طاقت کے طور پر استعمال کرنا۔ سکیولرازم ایک کوشش ہے کہ سیاسی رنگ والے مذہب کو مملکت پر کنٹرول حاصل کرنے سے روکا جاسکے۔ یہ بالکلیہ واجبی ہے کیونکہ ملک کی تقسیم مذہب کی اساس پر ہوئی تھی۔‘‘ اب لڑائی مذہب کو سیاسی رنگ دینے اور سکیولر دستور کو حق بجانب برقرار رکھنے کے درمیان ہے۔ یہ لڑائی دہلی، لکھنو، کولکاتا، حیدرآباد، پونے، کوچی اور کئی چھوٹے ٹاؤنس کی سڑکوں پر اور یونیورسٹیز میں نیز دیگر جگہوں پر جاری ہے۔ اس جدوجہد کی قیادت کرنے والے افراد سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے روایتی لوگ نہیں ہیں: وہ خواتین و بچے ہیں جو عام طور پر گھر میں رہتے ہیں؛ اور نوجوان ہیں جو متواتر حکومتوں سے مایوس ہیں اور اسٹوڈنٹس بھی ہیں جو سیاست سے ہی شاکی ہوگئے ہیں۔ یہ تمام احتجاجیوں نے سرد موسم برداشت کیا، پانی کی توپیں برداشت کئے، لاٹھیاں اور گولیاں تک کھائے (صرف اترپردیش میں 23 افراد پولیس فائرنگ میں مارے گئے)۔ دہلی کے انتخابات نے انڈیا کیلئے ’ویتنام جیسا موقع‘ فراہم کیا ہے۔ شاندار کامیابی اور اس کے ساتھ مساوات اور سکیولرازم کی توثیق ہوئی ہے جبکہ دہلی کے رائے دہندگان نے زبردست مینڈیٹ دیا۔ ’ٹکڑے ٹکڑے گینگس‘ جیت گئے! دعا ہے کہ یہ ٹکڑے ٹکڑے گینگس مضبوط تر ہوتی جائیں یہاں تک کہ وہ اپنے دستوری مقاصد حاصل کرلیں!(بشکریہ: روزنامہ سیاست بھارت )