ملکہ الزبتھ کی تدفین ہو گئی۔ سواال یہ ہے کیا اب ہم اپنا احساس کمتری بھی دفن کر سکتے ہیں۔ ملکہ 1952 سے 1956 تک پاکستان کی ملکہ رہیں۔ کیونکہ پاکستان کا آئین بننے تک ہم نے انڈیا ایکٹ 1935 کو اپنا عبوری آئین بنایا تھا تو یہ رسمی سا ایک منصب تھا جو ملکہ کے پاس تھا۔ لیکن اس سے ایک ایسے بحران نے جنم لیا جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔ پاکستان کی پہلی ( پارلیمان) دستور ساز اسمبلی کو گورنر جنرل غلام محمد نے توڑ دیا اور ( سپریم کورٹ) فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے اس اقدام کی توثیق کر دی۔ پاکستان آج تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پایا۔ تاہم اگر ہم معاملے کو اس کے سیاق و سباق میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے جسٹس منیر کے اس فیصلہ کا عنوان نظریہ ضرورت کی بجائے ’ نو آبادیاتی دور کا احساس کمتری‘ ہونا چاہیے۔ پاکستان کی حکومت نے پاکستان کی عدالت میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان ابھی تک ایک آزاد اور خودد مختار ریاست نہیں ہے اور وطن عزیز میں حاکمیت اعلی تو برطانوی ملکہ الزبتھ کے پاس ہے۔اس لیے پاکستان کی( پارلیمان )دستور ساز اسمبلی کے کسی قانون ، کسی ایکٹ ، کسی آئین کی کوئی حیثیت نہیں جب تک کہ ملکہ معظمہ الزبتھ کے نمائندے غلام محمد گورنر جنرل اس کی توثیق نہ فرما دیںاور چونکہ گورنر جنرل صاحب ملکہ معظمہ کے نمائندے ہیں، اس لیے اگر انہوں نے پوری کی پوری دستور ساز اسمبلی ہی کو گھر بھیج دیا ہے تو یہ عین انصاف اور عین قانون ہے۔چونکہ وہ ملکہ الزبتھ کے نمائندے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ ملکہ کا فیصلہ سمجھا جائے گا اور ملکہ کے فیصلے کے سامنے دستور ساز اسمبلی کی کیا مجال کہ دم مار سکے۔( یاد رہے کہ 1955ء کا قصہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے 9 سال بعد کا)یاد رہے کہ جسٹس کارنیلیس صاحب نے بطور جج فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میںلکھا تھا کہ یہ پاکستان کی خود مختاری کی توہین ہے۔یہ عمل،اصل میں توہین مسلسل ہے ، جس کے عنوانات بدلتے رہتے ہیں، متن ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ آئیے اس معاملے کو اس کے پورے سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں تا کہ ہمیں معلوم ہو سکے نو آبادیاتی دور کے احساس کمتری نے کیسے ہمارے اجتماعی سفر کو آغاز میں ہی غلط سمت میں ڈال دیا اور ہم آج تک اس کے آسیب سے نکل نہیں پائے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی ایک اپنی دستور ساز اسمبلی تشکیل پائی۔یہ ان اراکین پر مشتمل تھی جنہوں نے 1945ء کے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ برطانوی نو آبادیاتی ہندوستا ن میں یہ الیکشن بہت اہم تھے۔ کانگریس یہ الیکشن جیت گئی تھی مگر مسلمانوں کی تمام نشستوں پر مسلم لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی۔یوں گویا مسلم لیگ نے یہ بات ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی نمائندگی صرف مسلم لیگ کر رہی ہے۔اسی کامیابی نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کر دی۔ ان انتخابات نے متحدہ ہندوستان کے تصور کی عملی نفی کر دی۔ جب برطانیہ یہاں سے رخصت ہونے لگا تو طے یہ ہوا کہ جو علاقے پاکستان کا حصہ بننے جا رہے ہیں ، وہاں سے جو جو لوگ 1945کے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے وہی لوگ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن ہوں گے ۔ یہ بھی طے ہوا کہ یہ دستور ساز اسمبلی پاکستان کے لیے پہلا آئین بنائے گی۔جب تک یہ اسمبلی اپنا آئین نہیں بناتی تب تک ایکٹ آف انڈیا 1935 عارضی آئین قرار پایا۔ پاکستان کی اس دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 10 اگست1947 کو ہوا۔ اس وقت سپیکر کی بجائے صدر کا عہدہ ہوا کرتا تھا تو قائد اعظم اس دستور ساز اسمبلی کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔یہ ان لوگوں پر مشتمل اسمبلی تھی جن میں مسلمان نشستوں پرمنتخب ہونے والے تمام لوگ 1945کے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں خود قائد اعظم کا اپنا انتخاب تھے۔اسی اسمبلی میں قائد اعظم نے گیارہ اگست کو خطاب کیا اور ریاست کی تشکیل کے خطوط واضح کیے۔اسی اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظر کی اور ریاست کی فکری ساخت کو واضح کیا کہ حاکمیت اعلی خدا کی ہو گی ۔ قائد اعظم پہلے جلد بیمار ہو کرخالق حقیقی سے جا ملے۔ غلام محمد اب نئے گورنر جنرل تھے۔ اسمبلی کے نئے صدر ( سپیکر) مولوی تمیز الدین منتخب ہوئے۔ پھرلیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار دی گئی۔ تحقیقات کرنے والا تحقیقات سمیت جہاز میں مر گیا ، اور گورنر جنرل کو جانے والی فائل جب واپس آئی تو اندر سے خالی تھی۔ محلاتی سازشوں کے باوجود آئین سازی پر کام جاری رہا۔ نئے گورنر غلام محمد نے پہلے تو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو بر طرف کر دیا اور پھر عین اس وقت جب قائد اعظم کی دستور ساز اسمبلی پاکستان کا پہلا آئین ڈرافٹ کر کے پیش کرنے والی تھی ، غلام محمد ، گورنر جنرل نے اسمبلی ہی توڑ دی۔ قائد اعظم کی آئین ساز اسمبلی جسے قائد اعظم نے آئین بنانے کا حکم دیا تھا ، آئین تیار کر چکی تھی۔ جیسے ہی آئین نافذ ہوتا ، ملکہ برطانیہ کے نمائندے کے طور پر کام کرنے والے گورنر جنرل کا عہدہ اور اختیارات ختم ہو جانے تھے اور وہ عارضی بندوبست لپیٹ دیا جاتاجو ایکٹ آف انڈیا کی صورت نافذ تھا۔اسمبلی نے یہ طے کیا کہ پہلا آئین اسمبلی میں اس دن پیش کیا جائے گا جس دن بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ منائی جا رہی ہو گی، یعنی پچیس دسمبر کو۔گورنر جنرل نے اس سے پہلے ہی اسمبلی توڑ دی۔ مولوی تمیز الدین اس فیصلے خلاف سندھ ہائی کورٹ چلے گئے۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ اس پر حکومت فیڈرل کورٹ( سپریم کورٹ) میں چلی گئی جہاں جسٹس منیر نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہاں گورنر جنرل کی قانونی ٹیم نے جو دلائل دیے وہ اتنے شرمناک ہیں کہ فیصلے سے اختلافی نوٹ میں جسٹس کارنیلیس نے لکھا کہ یہ پاکستان کی خود مختاری کی توہین ہے۔ ملکہ کا اپنا موقف مختلف تھا جب ناظم الدین خواجہ نے ان سے درخواست کی کہ ان کے نمائندے کے طور پر گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں غلط طور پر برطرف کیا ہے تو ملکہ نے اس معاملے میں مداخلت سے انکار کر دیا کہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ گویا ملکہ کو پاکستان کی خود مختاری کا خیال تھا لیکن پاکستان کی حکومت اور جسٹس منیر کو نہیں تھا۔ جسٹس کنسٹنٹین اور جسٹس کارنیلیس نے صاف لکھا کہ پاکستان آزاد ملک ہے کسی بادشاہ یا ملکہ کا تابع فرمان نہیں لیکن ان کی رائے رد کر دی گئی۔ اس مقدمے میں جو دلائل دیے گئے اور جو فیصلہ دیا گیا، ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی دور کا احساس کمتری کتنا شدید تھا۔ آج ملکہ کی تدفین ہو گئی ہے۔ کاش ہم اپناا حساس کمتری بھی دفن کر سکیں۔