عید الاضحیٰ پھر بیت گئی، قوم کی عید کب ہوگی؟ غریب ریڑھی بان نے ٹکٹکی باندھتے ہوئے پوچھا، ہر کامیابی کے پیچھے جہد مسلسل کی طویل کہانی پنہاں ہوتی ہے، اذیتوں کے پہاڑ عبور کیے بغیر کوئی کچھ حاصل نہیں کر سکتا، سامنے کھڑے دانشور کا یہ جواب سنتے ہی مایوس اور بجھی ہوئی آنکھوں کیساتھ مسکراتے ہوئے غریب و لاچار نے کہا: آپ ایسا کہہ سکتے ہیں، ہماری جدوجہد جسم میں طاقت و توانائی تک محدود ہے، ترقی اگر اذیتوں کے پہاڑ عبور کر کے حاصل ہوتی تو ہر غریب ہی آخر کار امیر ہوتا، ہر ارب پتی کی ابتداء غربت سے ہوتی، سوال و جواب کی نشست نے دانشور کے کتابی علم و معلومات کو بے رنگ کر دیا، لہذا اس نے اپنی عافیت اس غریب شخص سے اسکا احوال جاننے میں جانی، پوچھا: پھر قوم کے غریب کی محرومی کا ازالہ کیا ہوسکتا ہے، اس دکھ کا مداوا کیا ہو، اس درد کا تریاق کیا ہو سکتا ہے؟ دکھ کے مارے پسینے میں شرابور مزدور نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ حکمران چوری چھوڑ دیں اور جو باز نہ آئے، اسے جرم کی سزا دی جائے، قانون پر عملدرآمد سیاست کے رنگوں سے آزاد ہونا چاہئے، پسند نہ پسند کی بنیاد پر احتساب کا کھیل اب بند ہو جانا چاہئے، آج چور کل ہیرو بنانے کا سلسلہ مزید نہیں چلنا چاہئے، 75 برسوں سے ملک کو بے دردی سے لوٹا گیا اور سالہاسال کیسز کی سماعت کے بعد کوئی اس ملک و ملت کا مجرم نہیں تو پھر ملک کو لوٹتا کون رہا؟ کون اس خرابی بسیار کا ذمہ دار ہے؟ کوئی جن ہے، جسے گرفت میں لایا نہیں جاسکتا؟ کون ہے؟ جس جس کی کرپشن کی فائل بنی، سزا ہوئی یا کیس چلا، بنیاد کیا تھی؟ کیوں بنی اور کس لیے بنی، اگر ہر کسی کو بری ہی کرنا تھا، جب معاشرے میں مساوات نہیں تو قومی وسائل لوٹے جاتے ہیں اور غریب کو اس کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے، غریب کو صرف نعرے ملتے ہیں اور کچھ نہیں، میڈیا کے انداز بھی نرالے ہیں، غریب کی محرومی کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے، مزدور کیلئے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی ٹریفک سگنل توڑنے سے زیادہ کی جاتی ہے مگر کسی کو کوئی سزا نہیں ہوتی، یقینا سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے چند نقائص ہوتے ہیں۔ مہنگائی کی شرح نے دو سے تین فیصد کے درمیان گردش کرنا ہوتا ہے لیکن یہ کیا کہ مہنگائی چالیس فیصد سے تجاوز کر جائے، غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح 37 فیصد سے بلند ہو جائے اور کوئی حکمرانوں کو کوسنے کی جرات نہ کرسکے، کیا جمہوری معاشروں میں ایسا ہوا کرتا ہے؟ دانشور نے اس غریب کی تڑپ کو دیکھتے ہوئے اسے حوصلہ دیا کہ آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں، امید پر دنیا قائم ہے، اللہ سب بہتر کردے گا، غریب نے جوابا مسکراتے ہوئے کہا: جناب میرا پورا ایمان اور یقین اللہ رب العزت کی ذات پر ہے، اللہ سب سے بڑا بادشاہ ہے، دنیا میں حکمرانی کے مزے لینے والوں کو سوچنا چاہئے کہ آخر اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے، کون ہے جسے اللہ کے سامنے کٹہرے میں کھڑا نہ ہونا ہوگا، روز محشر سب کو اپنا حساب دینا ہوگا، دنیا میں ناخدا بنے سب کے سب اللہ کے دربار میں جواب دہ ہونگے، جنہوں نے مراعات لیں اور اپنے فرائض منصبی ادا نہ کیے، وہ جو خود کو اشرافیہ سمجھتے ہیں اور ٹیکس ادا کر کے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی محرومی کے ازالے کا باعث بن سکتے ہیں لیکن حکمرانوں سے گٹھ جوڑ کر کے الٹا سالانہ 2700 ارب کی مراعات حاصل کر لیتے ہیں، کیا ان کا کوئی حساب نہیں ہوگا؟ یقیناً ہوگا اور وہ بچ نہ پائیں گے، صاحب ہمارے ملک میں تو کرپشن ہی جان نہیں چھوڑتی، جنہوں نے ٹیکس وصول کرنا ہے، وہ ایف بی آر کا محکمہ کرپشن کا گڑھ ہے، ٹیکس وصولی کی شرح بڑھانے کے دعوے ہر سالانہ بجٹ میں حکومت کرتی ہے اور تماشہ ملاحظہ ہو؛ ٹیکس کا محکمہ ایف بی آر پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان کے ساتھ وہ سلوک کرتا ہے کہ نادہندگان ٹیکس نیٹ ورک میں آنے سے ڈرتے ہیں، ٹیکس وصولی کا محکمہ ٹیکس کا ہدف پورا ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، پولیس جرم کا راستہ بنی ہوئی ہے، محکمہ تعلیم کو فروغ تعلیم سے کوئی سروکار نہیں، کس کس محکمے کی بات کریں، جو محکمہ جس مقصد کیلئے قائم ہے، وہ خود اس کی نفی میں مصروف ہے، موجودہ حکمرانوں کو دیکھ لیں، آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کی بابت طویل پریس کانفرنس کی گئی، جہاں جہاں معشیت کے بگاڑ کا ذکر آیا، ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرا دیا گیا، ان سے کوئی پوچھے کہ اگر عمران خان ہی سارے معاشی و اقتصادی بگاڑ کا ذمہ دار ہے تو پھر اسکی حکومت گرانے کا کیا فائدہ؟ اس وقت مہنگائی کی شرح 12 سے 14 فیصد بہت زیادہ اور قاتل تھی، جس کے منفی اثرات کا سامنا تاوقت ملک و ملت کو ہے تو اس وقت جو مہنگائی 40 فیصد کے خوفناک ہندسے کو بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے، اسکے ہولناک منفی اثرات کتنی دیر ملک و ملت کی زندگیوں کو اجیرن بنائیں گے۔ صاحب! یہ حکمران کہتے نہیں تھکتے کہ نواز شریف دور اقتدار کی طرح ملک میں خوشحالی لا کر رہیں گے، ملک دوبارہ ترقی کر کے رہے گا لیکن نواز شریف دور میں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ قوم کو اس وقت بھی کچھ حاصل نہیں تھا۔ البتہ ترقی کی راگنی سنائی جاتی تھی اور اس ان دیکھی ترقی کے شادیانے بجائے جاتے تھے، کیا ترقی اس چیز کا نام ہے کہ ملک کا غریب بھوکا سوئے اور حکمران قرض کے پیسوں پر سڑکیں اور پل محض اس لیے تعمیر کریں تاکہ ان کی ترقی کے کارناموں کی تشہیر کی جاسکے اور مال پانی بنانے کے سامان کا بندوبست کیا جاسکے، نہیں صاحب، یہ ترقی نہیں بلکہ ہمارے زخموں پر نمک پاشی ہے، 75 سالوں میں کتنے حکمران آئے اور چل دئیے، غریب کی فلاح و بہبود پر توجہ نہ دی جاسکی، غریب کا چولہا جلتا رہے، اس کیلئے کوئی مستقل بندوبست نہ کیا جاسکا، اشرافیہ کے مسائل کے حل کو ترقی کا کلیہ تصور کر کے ہم چلتے چلے آ رہے ہیں اور ترقی کے نعرے بلند کرنے والوں کو ترقی کی حقیقت کا علم نہیں، کسی قوم کی اس سے بڑھ کر کوئی بے چارگی ہوسکتی ہے تو بتائیے! ایک غریب پاکستانی کی ان باتوں نے اس دانشور کو خاموش ہونے پر مجبور کردیا، شائد وہ شرمندہ بھی ہوا ہو تاہم یہ غریب اللہ حافظ کہتے ہوئے ایک سوال چھوڑ گیا: عید الاضحیٰ پھر بیت گئی، قوم کی عید کب ہوگی؟