امیر المومنین سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم سے 14ہجری میں بصرہ کا نیا شہر بسایا گیا تو اس نو تعمیر جامع مسجد میں پہلی نمازِ جمعۃ المبارک پڑھنے کے لیے سارا شہر امڈ آیا ۔اس دن لوگ خوشی اور شکرانے کے ملے جلے جذبات سے سرشارتھے اور ان کی تسبیح وتہلیل سے مسجد کے درودیوار گونج رہے تھے ۔خطبہ شروع ہوا تو لوگ ساکت وصامت ہوکر گوش بر آواز ہوگئے ۔خطیب دل کش حجازی خدوخال اور نورانی صورت کے ایک بلند قامت بزرگ تھے ۔سادہ سا لباس زیب تن کیا ہواتھا اور آنکھوں سے پتہ چلتاتھا کہ وہ ایک مرد پاکباز اورشب بید ار عابد ہیں ۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور نبی رحمت کی بارگاہ میں ہدیہ تبریک پیش کرنے کے بعد فرمایا:’’دنیا نے اپنے اختتام کی خبردے دی ہے اوربہت جلد پیٹھ پھیرنے والی ہے ۔اب دنیا صرف اتنی رہ گئی جتنا برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے اوراب تم دنیا سے اس جہان کی طرف منتقل ہونے والے ہو جو لازوال ہوگا، سو! تم اپنے ساتھ بہترین ماحضر لے کر منتقل ہو کیونکہ ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک پتھر کو جہنم کے کنارے سے گرایا جائے گاتو وہ ستر سال تک اس کی گہرائی میں گرتا رہے گا پھر بھی اس کی تہہ کو نہیں پاسکے گا، اورخد ا کی قسم! جہنم بھر جائے گی اور بے شک ہم سے یہ بیان کیاگیا ہے کہ جنت کے دروازے کے ایک تاک سے لے کردوسرے تاک تک چالیس سال کی مسافت ہے اورجنت میں ضرور ایک ایسا دن آئے گا جب وہ لوگوں کے رش سے بھری ہوئی ہوگی، اورتم کو معلوم ہے کہ میں ان سات صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے ساتواں تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے ، اور ہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوااورکوئی کھانے کی چیز نہیں تھی، مجھے ایک چادر مل گئی تو میں نے اپنے اورسیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے درمیان اس کے دوحصے کیے ، نصف چادر کا میں نے تہبند بنایااورنصف کا سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ نے ، اورآج ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی شہرکا امیر ہے ،اورمیں اس چیز سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اوربے شک نبوت ختم ہوگئی اورمجھے معلوم ہوتا ہے کہ انجام کا ربادشاہت قائم ہوگی اورتم ہمارے بعد آنے والے حاکموں کا حال بھی دیکھ لو گے اورتمہیں ان کا تجربہ بھی ہوجائے گا۔‘‘یہ کوئی اور نہیں بلکہ سیدنا عتبہ بن غزوان مازنی رضی اللہ عنہ تھے اور جب آپ نے یہ خطبہ دیا اور اس وقت آپ بصرہ کے گورنر تھے ۔ آپ کی کنیت ’ابو عبداللہ‘ہے ،آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے :’’ عتبہ بن غزوان بن جابر بن وہب بن نسیب بن زید بن مالک بن الحارث بن مازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن عیلان بن مضر۔‘‘آپ کا سلسلہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نسب ساتھ اٹھارہویں پشت میں مضر بن نزارپر متصل ہوجاتاہے ۔سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ السابقون الاولون من المہاجرین میں شامل ہیں،آپ دوسری ہجرت حبشہ میں شریک ہوئے لیکن کچھ عرصہ کے بعد پھر واپس مکہ مکرمہ چلے آئے ۔اس کے بعد ہجرت مدینہ طیبہ کی سعادت حاصل کی اورسیدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مؤاخات قائم کی،آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔تیر اندازی کے لحاظ سے ان کا شمار اپنے فن کے کاملین میں ہوتا ہے ۔آپ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم میں شامل ہیں،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں کئی مہمات کی کامیاب قیادت کی۔ تقویٰ، زہد، جفاکشی اورعاجزی وانکساری کے اوصاف سے مزین تھے ۔ تکبر اورغرور سے دور کا بھی علاقہ نہیں تھا۔14ہجری میں خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو بندرگاہ ابلہ، بیسان اوراس کے ملحقہ مقامات کی فتح پر مأمور فرمایا،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کی نوازش وبرکت پر اعتماد کرکے عرب کے انتہائی حدود اورمملکت ِ عجم کے قریب ترین حصہ کی طرف اپنے ساتھیوں کو لے کر روانہ ہوجائیں ، جہاں تک ممکن ہو تقویٰ کو اپنا شعار بنائیں اورخیال رکھیں کہ آپ دشمن کی سرزمین میں جا رہے ہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا۔ میں نے حضرت علا ابن الحضرمی رضی اللہ عنہ کو لکھا ہے کہ حضرت عرفجہ بن ہرثمہ رضی اللہ عنہ کو بھیج کر آپ کی مدد کریں، وہ دشمن کے مقابلہ میں ایک نہایت سرگرم مجاہد اورصاحب تدبیر شخص ہیں ،آپ ان کو اپنا مشیر بنائیں اور اہل عجم کو اللہ تعالیٰ کی دعوت دیں، جو دعوت ِ حق قبول کرے اسے پناہ دیں، جو اس سے انکار کرے وہ محکومانہ عاجزی کے ساتھ جزیہ دے ورنہ تلوار سے فیصلہ کریں، راستے میں جن عربی قبائل کے پاس سے گذریں انہیں جہاد اوردشمن سے لڑنے کا کہیں اورہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں۔‘‘ سیدنا عتبہ رضی اللہ عنہ نے حسبِ فرمان اس مہم کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیااور دریائے دجلہ کا تمام ساحلی علاقہ جوابلہ،ابرقباذ اورمیسان وغیرہ جیسے اہم مقامات پر مشتمل تھااسلام کے زیر نگیں کر دیا۔اسی سال آپ کو بندرگاہ ابلہ کے قریب جہاں خلیج فارس کے ذریعہ سے ہندوستان وفارس کے جہازات لنگر کرتے تھے ، ایک شہر بسانے کا حکم دیا گیا، سیدناعتبہ رضی اللہ عنہ آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ اس کف دست میدان میں تشریف لائے اور شہر کی داغ بیل ڈالی، ہر قبیلہ کے لیے ایک ایک محلہ مخصوص کردیا، سیدنا محجن بن الادرع رضی اللہ عنہ کو جامع مسجد کی تعمیر پر مامور فرمایا، عمارتیں اولاً گھاس پھوس سے بچھائی گئی تھیں، چنانچہ جامع مسجد کی عمارت بھی بانس اورپھوس سے بنائی گئی تھی۔ سیدنا عتبہ رضی اللہ عنہ اس نئے شہر کے سب سے پہلے والی مقرر ہوئے اور چھ مہینے تک نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ فرائض منصبی انجام دیتے رہے لیکن زہد وبے نیازی نے اس سے کنارہ کش ہونے پر آمادہ کردیا،15ہجری میں سیدنا مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ کو جانشین بنا کر فرأت کی طرف فوج کشی کاحکم دے دیا اورسیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو امامت کی خدمت سپرد کرکے حج کے خیال سے مکہ معظمہ تشریف لائے ، یہاں امیر المومنین سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ موجود تھے ،ان کی خدمت میں اپنا استعفیٰ پیش کیا لیکن انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار فرمایا اوربصرہ واپس جانے کی ہدایت کی۔17ہجری میں 57 برس کی عمر میں وصال فرمایا۔ (مصادر ومراجع:شرح صحیح مسلم،مسند احمد بن حنبل، طبقات ابن سعد، اسد الغابہ،فتوح البلدان)