اتحادی حکومت کی تمام خامیو ں اور کوتاہیوں کے باوجود پتہ نہیں پاک سیکرٹریٹ میں بیزاری سے جمائیاں لیتے ملازمین کو کیوں یقین تھا کہ عام انتخابات کے بعد شہباز شریف بطور وزیراعظم اور احسن اقبال بطور وزیر منصوبہ بندی واپس آئیں گے۔ قدرے تاخیر سے سہی، عام انتخابات منعقد ہوئے اور حکومت سازی کا کام تکمیل کو پہنچا۔ پاک سیکرٹریٹ میں رونقیں واپس آگئیں۔ شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے اور احسن اقبال ان کی کابینہ کا حصہ۔ یہ سب کیسے ہوا، سب سامنے ہے۔ تاریخ فیصلہ دے چکی۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کوئی سمت نہیں لے رہی۔ کئی ماہ ہوگئے ہیں لیکن پائیدا ر اور ہمہ جہت ترقی کا کوئی بیانیہ سامنے نہیں آسکا۔ ابھی تک معاملہ مالیاتی استحکام پر ہی اٹکا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے مزید قرضہ چاہیے اور اس کی شرائط کے طور پر محصولات بڑھانا ہیں تاکہ مالیاتی خسارہ کم ہو اور ادائیگیوں کا توازن بہتر۔ اس مہم میں تو وزیر خزانہ جتْے ہوئے ہیں اور کوئی راستہ نکل ہی آئے گا۔ لیکن سیاسی حکومت کا مسئلہ بالآخر عوام ہی ہوتے ہیں۔ بجلی ،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی مد میں وصول کیے جانے والے بلاجواز ٹیکسوں کا خاتمہ کرکے مہنگائی کے عفریت پر کیسے قابو پایا جائیگا، اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ نئی صنعتوں اور کاروبار کا تعلق بھی سستی توانائی ہی سے جڑاہے۔ مزید جو کیا جاسکتا ہے وہ شرح سود ہے، بینکوں سے پیسہ حکومت اٹھا لیتی ہے اور کاروباری طبقہ دیکھتا کا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ نہ ہی علاقائی تجارت کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ سستی اشیا، خام مال اور سرمایہ کی ترسیل کا یہ راستہ بھی بند ہے۔ ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع اور عمومی لاقانونیت کا خاتمہ بھی مہنگائی کو کم کرنے میں مدد گار ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نظام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، پالیسی ساز سوگئے ہیں۔ حکومت یا توکنفیوز یا پھر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ شہباز شریف کے پچھلے مختصر دورانیے کی حکومت میں احسن اقبال نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا کہ وزارت منصوبہ بندی نے ترقی کا فریم ورک تخلیق کیا تھا جوکہ ترقیاتی وژن2025 ء کی روشنی میں ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ فریم ورک جو کہ تین ماہ کے مختصر عرصے میں تیا رکیا گیا تھا اس میں یہ بات اصولی طور پر تسلیم کی گئی تھی کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی جڑ دہائیوں سے اپنایا گیا درآمدات پر مبنی ترقیاتی ماڈل ہے جوکہ صارف معیشت کو فروغ دیتا ہے۔ خود انحصاری کے بجائے مخصوص شعبوں کو ترقی دی جاتی ہے تاکہ تجارتی توازن برقرار رکھا جا سکے۔ درآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ اس پر ٹیکس لگا کر محصولات بڑھائے جاسکیں۔ ہم نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ دیا۔ تیل سستا تھا تو ہم نے بجلی کی پیداوار کو اس پر منحصر کردیا۔ نوے کی دہائی میں عالمی اداروں نے ہمیں قرضے دیئے تو نجکاری کی طرف بڑھے اور لازمی اشیا کے فراہمی والے کارخانے اور بینک نجی شعبے کی تحویل میں چلے گئے ، اجارہ داریاں قائم ہوگئیں ، احتسابی اداروں کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔ بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی تو ہوئی، عوام بھی رل گئے کہ اب قیمتوں کا تعین منڈی میں نہیں بلکہ سرمایہ دار کے ہاتھ میں چلا گیا۔ ہماری صنعتیں بیٹھ گئی ہیں تو اب ضروری اشیا (دالیں، خوردنی تیل) بھی باہر سے منگوانا پڑ رہی ہیں۔ درآمدات سے محصولات توبڑھتی ہیں مگر درآمدی بل بھی بڑھ جاتا ہے۔ روپے کی قدر کم کرکے برآمدات بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ضروری اشیا عوام کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں۔ حکومت آئی ایم سے قرضہ لیتی ہے ، محصولات بڑھانے کا تقاضہ ہوتا ہے تو بوجھ بیروزگاری اور غربت سے جلے عوام پر ڈل دیا جاتا ہے۔ حکومت مخمصے کا شکار نظر آتی ہے۔ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے سرمایہ کاری بڑھانے کے بیانات تو بہت داغے جاتے ہیں مگر سرمایہ کار ی کے لیے ضروری ماحول ناپید ہے۔ اسی طرح برآمدات بڑھانے کے بات تو کی جاتی ہے مگر اس ضمن میں عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ پلاننگ کمیشن کے سربراہ جنہوں نے عوام کو پچھلے مختصر دور حکومت میں سبز باغ دکھائے تھے وہ بھی ان حالات میں بے بس نظر آتے ہیں۔ پائیدار اور ہمہ جہت ترقی کا وہ بیانیہ جو انہوں نے پیش کیا تھا اس کی بھی پاسداری کی استطاعت ان میں نظر نہیں آرہی۔ اس وقت پلاننگ کمیشن کو بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کسی طور کوئی ایسی جادو کی چھڑی ہاتھ آ جائے جو آئی ایم ایف اور چین دونوں کو بیک وقت راضی رکھ سکے۔ یہ باریک کام بھاری بھرکم تنخواہوں پر بھرتی سوشل میڈیا ٹیم سے تو ہونے سے رہا۔ وزارت نے حال ہی میں ایک اشتہار کے ذریعے تعلقات عامہ اور ادارتی صلاحیت کے افراد کی بھرتی کا عندیا دیا ہے جن کے پاس بیانیہ تخلیق کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔ واضح ہے کہ مسئلہ بیانیہ نہیں کہ یہ پہلے سے پلاننگ کمیشن کے پاس موجود ہے بلکہ اس کا اطلاق ہے جو اس کے بس میں میں نہیں۔ بیرونی سرمایہ کی ترغیب ضروری ہے لیکن جو سرمایہ کاری ہوگئی ہے اسے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہورہے۔ سی پیک سے متعلقہ منصوبوں سے سرمایہ نکل رہا ہے۔ عرب سرمایہ کاروں کو جن شرائط پر منصوبے پیش کیے جا رہے ہیں ان کا متنازعہ ہوجانا طے ہے۔ مقامی سرمایہ کار آسمان کو چھوتی شرح سود کی پالیسی سے نالاں ہیں۔ مہنگی توانائی کی وجہ سے صنعتیں بند ہیں۔ عوام کی قوت خرید دم توڑ گئی ہے۔ روپے کی بے قدری کی وجہ سے اشیائے ضرورت تک لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ حکومت کے پاس ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن دینے کے پیسے نہیں۔ محصولات کا نشانہ امیر طبقہ نہیں بلکہ بے بس اور لاچار عوام ہیں۔ (جاری ہے)