انتداب کے دورانیے میں، لیگ آف نیشنز سے اقوام متحدہ تک، یورپ سے لاکھوں یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کیا جاتا رہا۔ یہ سارا عمل فلسطینیوں کی مرضی اور خواہش اور اجازت کے بغیر ہوا۔ سوال یہ ہے کہ فلسطی میں یہود کی اس جبری آبادکاری کے بارے میں انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے اور دنیا کے مسلمہ قوانین اور ضوابط میں کیا اس طرح کے اقدام کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ جب فلسطین میں سلطنت عثمانیہ کا اقتدار ختم ہوا اور یہ علاقہ لیگ آف نیشنزکے انتداب کے تحت برطانیہ کی نگرانی میں دیا گیا تو اقوام متحدہ (سب کمیٹی برائے تقسیم فلسطین) کے اعدادو شمار کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی 93 فی صد تھی۔ اقوم متحدہ کی ذیلی کمیٹی نے یکم نومبر 1947 کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس وقت (یعنی 1947) میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو کر 66 فی صد رہ گئی ہے۔ اگر چہ اس وقت بھی جب اسرائیل قائم کیا جا رہا تھا مسلمان فلسطین کی کل آبادی کا دو تہائی تھے اور ان کے پاس فلسطین کی کل زمین کا 94 فی صد تھا اور وہ ا س کے جائز مالک تھے تا ہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انتداب کے دورانیے میں یہودیوں کو دنیا بھر سے لا لا کر فلسطین میں یوں آباد کیا گیا کہ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب جو 1920 میں 93 فی صد تھا، 1947 تک کم ہو کر 66 فی صد رہ گیا تھا۔ تین دہائیوں میں کسی ملک میں آبادی کا تناسب اس انداز سے بدل دینا، معلوم انسانی تاریخ کا ایک بہت برالمیہ اور غیر معمولی نا انصافی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین میں یہودی آباد کاری کا بھر پور دور شروع ہوا اور فلسطین کو جب برطا نوی انتداب میں دیا گیا تو یہ سلسلہ عروج پر جا پہنچا۔ مشرقی یورپ وغیرہ سے یہودیوں نے فلسطین کا رخ کیا اور یہاں ان کی آبادکاری میں انہیں عالمی قوتوں نے تعاون فراہم کیا۔ وجوہات جو بھی رہی ہوں، سوال یہ ہے کہ جب یہودی مشرقی یورپ وغیرہ سے نکلے تو انہیں فلسطین میں کیوں لایا گیا؟ اس اقدام کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے؟ یورپ اور امریکہ نے انہیں اپنے ہاں آباد کیوں نہ کر لیا؟ ان کے ساتھ اگر کہیں ظلم ہوا تھا تو اس میں فلسطین کا کیا قصور تھا؟ ان کے لیے اگر کہیں حالات ناسازگار تھے تو اس کا تاوان فلسطینیوں سے کیوں وصول کیا گیا؟ اگر انہیں نا مساعد حالات سے نکالنا تھا تو یہ اقوام عالم کی ذمہ داری تھی یا یہ فلسطین کی ذمہ داری تھی؟ لیگ آف نینشز اور پھر اقوام متحدہ کے رکن ممالک انہیں اپنے ہاں کیوں نہ رکھ سکے؟ برطانیہ اور امریکہ نے ان کی میزبانی کیوں نہ فرمائی؟ انہیں فلسطین میں لا کر آباد کرنے کا فیصلہ غیر فلسطینیوں نے کس استحقاق سے کر لیا؟ َ کیا کسی کے پاس یہ قانونی اختیار تھا کہ وہ باہر سے لاکھوں یہودی لا کر انہیں جبری طور پر فلسطین میں آباد کر دے؟َ کیا انٹر نیشنل لا کے تحت یہ ایک جائز اقدام تھا کہ فلسطینیوں کی اجازت اور مرضی کے بغیر باہر سے اتنے یہودی لا کر آباد کر دیے جائیں کہ مقامی آبادی کا تناسب 93 فی صد سے کم ہو کر 66 فی صد رہ جائے؟ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر نے اجتماعی طور پر جتنے یہودیوں کو اپنے ہاں جگہ دی، اکیلے ایک فلسطین میں آباد کیے جانے والے یہودیوں کی تعداد اس سے زیادہ تھی۔ اقوام متحدہ کی سب کمیٹی کی نومبر 1947 کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 1933 سے 1946 تک فلسطین میں 2 لاکھ 87 ہزار 63 یہودی آباد کیے گئے۔ (اور 1920 سے 1932 تک فلسطین میں آباد کیے گئے یہودیوں کی تعداد 1 لاکھ 18 ہزار 3 سو 78 (118378) تھی۔ یہ ملاکر کل تعداد 4 لاکھ 54 ہزار 4 سو 41 بنتی ہے۔)۔ جب کہ دیگر ممالک مین آباد ہونے والے یہودیوں کا تناسب یہ تھا۔ امریکہ: 1 لاکھ 88 ہزار 6 سو 48/برطانیہ: 65 ہزار/ برازیل: 23 ہزار پانچ سو /چلی: 14 ہزار/بولیویا: 12 ہزار/کینیڈا: 12 ہزار/آسٹریلیا: 8 ہزار پانچ سو/جنوبی افریقہ: 8 ہزار / یوروگواے: 7 ہزار یہ سب مل کر 3 لاکھ 64 ہزار 6 سو 48 (364648) بنتے ہیں ۔ جب کہ فلسطین میں مجموعی تعداد تب تک 4 لاکھ 54 ہزار 4 سو 41 تھی۔ پوری دنیا میں یہودیوں کی آباد کاری ایک طرف اور فلسطین میں ایک طرف۔ پھر بھی فلسطین میں لائے گئے یہودیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنے پناہ گزین یہودی ساری دنیا نے مل کر قبول کیے اس سے زیادہ ایک اکیلے فلسطین میں کیوں جبری طور پر آباد کیے ئے؟ فلسطین کا کیا قصور تھا؟ کیا یورپ سے یہودیوں کو فلسطین نے نکالا تھا؟ یورپ سے ان کی بے دخلی میں کیا فلسطین کا دور دور تک کوئی تعلق تھا؟ پھر ان کی جبری آباد کاری کا بوجھ فلسطین کے حصے میں کیوں آیا؟ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ میں بیٹھی جو اقوام فلسطین میں یہودیوں کو جبرا آباد کرنے کے منصووبے بنا رہے تھے، ان کے دل میں اگر اتنا ہی درد تھا تو انہوں نے یورپ سے آنے والے ان یہودیوں کو اپنے اپنے ممالک میں کیوں جگہ نہ دی؟ یہ مسئلہ فلسطین کا نہیں تھا یہ یورپ کا مسئلہ تھا، اس کا بوجھ فلسطین پر کس اصول کے تحت ڈالا گیا؟ اور اگر ڈالنا ہی تھا تو سب پر برابر کیوں نہ ڈالا گیا؟ اقوام متحدہ کی سپیشل کمیٹی برائے فلسطین کی رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں اس معاملے کو دیکھیں تو وہاں ان یہودی ریفیوجیز کو بین الاقوامی ذمہ داری International responsibility قرار دیا گیا۔ اور اس کے لیے بین الاقوامی بندوبست ٰinternational arrangement کا کہا گیا۔ جب یہ بین الاقوامی ذمہ داری تھی تو اسے عملا صرف فلسطینی ذمہ داری کیسے قرار دے دیا گیا؟ چنانچہ اقوام متحدہ کی سب کمیٹی نے اپنی رپورٹ کے پیراگراف 47 میں لکھا کہ اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ان لوگوں کو کسی ملک کے باشندوں کی مرضی کے خلاف اس ملک میں لے جا کر آباد کیا جائے۔ فلسطین میں یہود کی جبری آباد کاری اس اصول کی خلاف ورزی تھی۔ اقوام متحدہ کی سپیشل کمیٹی برائے فلسطین کی رپورٹ میں اس سوال پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ پیراگراف 20 میں لکھا ہے کہ فلسطین پہلے ہی over populated ہے اور یہاں اوسطا ہر مربع میل میں 324 افراد آباد ہیں۔ (یعنی یہاں مزید لوگوں کی گنجائش نہیں)۔ پیراگراف 27 اور پیراگراف 54 میں لکھا گیا کہ فلسطین کی معاشی حالت بھی ایسی نہیں ہے کہ وہ ا س آباد کاری کا بوجھ اٹھا سکے۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ اس معاملے میں اقوام متحدہ کے وضع کردہ اصول کیا رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اس پر انشا اللہ اگلے کسی کالم میں تفصیل سے بات کریں گے۔( جاری ہے)