ہماری لڑکھڑاتی معیشت اگر پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اداروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو کیا یہ پی ٹی وی کے لنگر خانے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ اگر دیگر اداروں کی نجکاری کا سوچا جا سکتا ہے تو کیا پی ٹی وی کے سفید ہاتھی کی نجکاری نہیں ہو سکتی؟پبلک پرائیویٹ پارٹنر سکیم کا بڑا شہرہ ہے تو کیا اس سکیم کا اطلاق پی ٹی وی پر نہیںہو سکتا؟ کیا عقل اور دلیل کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار ہے کہ بجلی کے بلوں سے تیس پینتیس روپے ٹیکس کاٹ اس ادارے میں منظور
منگل 19 مارچ 2024ء
مزید پڑھیے
آصف محمود
It's the economy, stupid
هفته 16 مارچ 2024ءآصف محمود
نیم خواندہ معاشرے میں سیاست کے اپنے تقاضے ہوں گے ، جھوٹ ، بڑھکیں ، نعرے ، تماشے سب کچھ سکہ رائج الوقت ہو گا ۔لیکن کیا ہم اپنے اہل سیاست سے یہ درخو است کر سکتے ہیں کہ کم از کم معیشت کو بازیچہ اطفال نہ بنایا جائے؟
ابتدائی علامات اطمینان بخش ہیں۔ اس وقت جب آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے ، وزیر اعلی کے پی ، علی امین گنڈا پور وزیر اعظم شہباز شریف سے جا کر ملتے ہیں۔اس ملاقات کے بعد علی امین گنڈا پور کی طرف سے آنے والا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
موسم روٹھ رہے ہیں
جمعرات 14 مارچ 2024ءآصف محمود
موسم بدل رہے ہیں۔ موسموں کا وہ سارا نظام الاوقات تبدیل ہو رہا ہے جو صدیوں سے قائم تھا۔ سیاست پر لمبی اور لاحاصل بحثوں سے وقت ملے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ماحولیات سے جڑا چیلنج خوف ناک ہوتا جا رہا ہے۔
مارچ کا آدھا مہینہ گزر چکا اور جنگلوں میں پھول نہیں کھلے۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ چیتر کی رت شروع ہو جائے اور جنگل پھولوں سے بھر نہ جائے۔ فروری کے آخری دنوں میں جنگل پھولوں سے بھر جاتا تھا۔جھیل کو جاتے رستے پر پھولوں کا قالین سج جاتا تھا۔ درہ جنگلاں میں
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ہمارے مکیش امبانی کہاں ہیں؟
بدھ 13 مارچ 2024ءآصف محمود
بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے جس معیشت کی چولیں ہلا دی تھیں ، آج اسی معیشت کو نجکاری کے ذریعے سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئی ہے جو اس سارے عمل سے عبرت حاصل کرے ؟یہ کہانی میں نے 2019 ء میں لکھی تھی ، وقت کا تقاضا ہے اس کہانی کو ایک بار پھر آپ کے سامنے رکھا جائے۔
ایک و قت تھاپاکستان کی معاشی اٹھان شان دار تھی۔ساٹھ کی دہائی تک ہم اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ بیچ میں بھٹو کا سوشلزم نہ آتا تو آج دنیا میں ہم بہت آ گے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری!
هفته 09 مارچ 2024ءآصف محمود
انتخابات ہو گئے ، اب ہمیں معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور معاشی استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہ آ جائے۔ اشرافیہ کا معاملہ الگ ہے ، وہ وسائل کے چشموں پر خیمہ زن ہے اور مزے میں ہے۔ عام آدم کا برا حال ہے ، اسے ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑنا ہے اور حالات نے اسے گھائل کر دیا ہے۔ اشرافیہ سیاست برائے سیاست کی متحمل ہو سکتی ہے لیکن عام آدمی نہیں۔ عام آدمی اب چاہتا ہے کہ معیشت کچھ بہتر ہو اور وہ اپنے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
فلسطین :ہمارے شاعرا ور ادیب کہاں ہیں؟
جمعرات 07 مارچ 2024ءآصف محمود
غزہ برباد ہو چکا ہے اور تیس ہزار لوگوں کے جسم مقتل میں پڑے ہیں لیکن نہ کوئی نظم لکھی گئی نہ کوئی نوحہ بلند ہوا، نہ کوئی فسانہ لکھا جا سکا نہ کوئی کہانی ۔سوچتا ہوں، ہمارے شاعر اور ادیب کہاں ہیں؟ حفظ مراتب میں قلم بھاری ہو رہا ہے ورنہ میں لکھنا تو یہ چاہتا تھا کہ یہ کہاں مر گئے ہیں؟
ہم پہلے دن سے تو یوں نامراد نہیں تھے۔ یہ سکوت مرگ نیا نیاہے۔ مشرقی یروشلم پر جب اسرائیل نے قبضہ کیا توہمارے ادیبوں اور شاعروں نے اس غم کو مجسم کر دیا۔ آج ننھے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
بھٹو ریفرنس : ایک باریک نکتہ
منگل 05 مارچ 2024ءآصف محمود
بھٹو کیس پر صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل ہو چکی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ یہ خبر پڑھی تو دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔
نظام انصاف کا عالم دیکھیے،صدر آصف زرداری نے یہ ریفرنس فائل کیا ، ان کا دور صدارت ختم ہوگیا مگر ریفرنس پر فیصلہ نہ ہو سکا۔ پھر ممنون حسین آئے ، وہ چلے گئے تو عارف علوی آئے اور اب یہ امکان دستک دے رہا ہے کہ آصف زرداری ایک بار پھر صدر بن جائیں گے ۔ کوئی ہے جو سوچے کہ ریفرنس پر فیصلہ آتے آتے اتنا وقت کیوں
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟
هفته 02 مارچ 2024ءآصف محمود
نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ اس کے پہلے اجلاس کا ماحول دیکھا تو کرامزن کے ناول کا وہ چرواہا یاد آ گیا جو آتش فشاں پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔میں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ قومی اسمبلی کے ماحول سے لطف اندوز ہونے والوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کوقریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے؟ کچھ نے حیرت کا اظہار کیا ، بعض نے اپنے تئیں تصحیح فرمانے کی کوشش کی کہ شایدیہ رقم آٹھ لاکھ ہے جو غلطی سے آٹھ سو لاکھ لکھ دی
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
مخصوص نشستیں ہوتی ہی کیوں ہیں؟
جمعرات 29 فروری 2024ءآصف محمود
قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی ممکنہ تقسیم پر زور و شور سے بحث جاری ہے لیکن اس بنیادی سوال پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ مخصوص نشستیں ہوتی ہی کیو ں ہیں؟ بندر بانٹ کا یہ چور دروازہ بند کیوں نہیں کر دیا جاتا؟
بنیادی جورسپروڈنس ہی یہی ہوتی ہے کہ قومی اسمبلی کا رکن عوام کے براہ واست ووٹ سے بنتا ہے ۔ یہی بات آج تک قومی اسمبلی کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود ہے ا ور اس کے مطابق ’قومی اسمبلی کا رکن عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔‘ سوال یہ ہے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ہم سب انتہا پسند ہیں؟
منگل 27 فروری 2024ءآصف محمود
لاہور بازار میں ایک خاتون کے ساتھ جو ہوا ، یہ ہمارے سماجی بحران کا محض ایک جزو ہے ، کُل نہیں ہے۔صرف مذہبی طبقہ نہیں ، اپنے اپنے دائرے میں ہم سب انتہا پسند ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ مذہبی طبقہ تو انتہا پسند ہے اور باقی کا سماج لکھنئو کے لہجے میں بات کرتا ہے تو باتوں سے خوشبو آتی ہے؟ انتہا پسندی ایک ایسا عارضہ ہے جو کسی طبقے کو نہیں ، سارے معاشرے کو لاحق ہے۔ اس حقیقت کا انکار کرتے ہوئے صرف مذہبی طبقے کو ملامت کرنا بذات خود ایک انتہا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے