اْن کی 91 برس کی زندگی گواہی دے رہی ہے کہ وہ بڑے انسان تھے۔ وہ نیوٹن اور آئن اسٹائن کی طرح سائنسدان تو نہیں تھے۔ لیکن یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ انسان کی نفسیات کے بعض دلچسپ اور غیر معمولی زاویہ نگاہ کے موجدضرور تھے۔ اِس اعتبار سے ڈاکٹر صاحب کی داستان حیات بڑی دلچسپ ہے ۔ وہ ایک طبیب تھے، کم وسیلہ یتیم اور معذور بچوں کا سہارا، دانشور و محقق، انسانی نفسیات کے ماہر، سیاسی میدان کے شہسوار، اْردو زبان کے محسن۔ سچ پوچھیں تو میں جب بھی اْن سے ملا اِس کھوج میں رہا کہ دنیا بھر کے انسانوں کی فطرت، جبلت، احساس اور شخصیت سازی کے میکنزم کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے علمی کمالات سے کوئی استفادہ حاصل کرسکوں، کیونکہ مجھے ہمیشہ اپنے قابل احترام دوست عبیداللہ بیگ کی یہ بات یاد رہتی کہ اگر قدرت کا کمال دیکھنا ہے۔ تو انسان کو دیکھو"۔ ڈاکٹر مبین اختر کے سفر زندگی میں محنت، ذہانت اور قابلیت کے رنگ بکھرے پڑے ہیں عزم و ہمت اور ایثار کے بے شمار واقعات اِس مسافت میں جابجا نظر آئیں گے۔وہ زندگی بھر محبت اور دوستی کے رشتے استوار کرتے رہے ایسے انسان تھے، جنہوں نے دوسروں کے لئے اْمید کے چراغ جلائے۔ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ برادرم عارف الحق عارف نے ڈاکٹر صاحب کی وفات پر اْن کی زندگی کے چند اوراق اْلٹے ہیں۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اْن کی زندگی کے کتنے متنوع رنگ تھے۔ اْن کے شب و روز کیسے گزرے۔ اْن کی نجی اور ازواجی زندگی میں کیسے خوشگوار موڑ آئے۔ اخبارِ جہاں میں ہماری دوست محترمہ فلک ناز ڈاکٹر صاحب کے ساتھ معاون کے طور پر ایک طویل مدت تک کام کرتی رہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات اْنہی کے حوالے سے ہوئی وہ زندہ دل اور باغ و بہار شخصیت تھے۔ جب اجنبیت کے پردے سرکے تو پھر اْن سے گفتگو کے نئے نئے رنگ نمودار ہوئے ایک دِن بیماری کی خبر ملی تو تیمارداری کے لئے حاضر خدمت ہوا۔ میں نے کہا سنا تھا آپ کی طبیعت کچھ ناساز ہوگئی ہے۔ شاید اْس وقت اْن کی رگِ ظرافت پھڑکی۔ تو لیٹے لیٹے مسکراکر کہنے لگے کہ یار وہ آیا تھا موت کا فرشتہ لیکن اِس سے پہلے کہ وہ میری گٹھڑی اپنے سر پر رکھتا میں نے اِس سے کہا کہ یار تمہارا جو جی چاہے کرو بس مجھے اللہ تعالیٰ سے اتنا پوچھ دو، میری اوپر زیادہ ضرورت ہے یا نیچے" اس نے کہا کہ بس تم یہیں رہو۔ میں پوچھ کر آتا ہوں" اور غائب ہوگیا اور اس کے بعد ابھی تک تو واپس نہیں آیا۔ شاید اللہ تعالیٰ نے کسی اور کام پر لگا دیا۔ ڈاکٹر صاحب سے بہت سی ملاقاتیں رہیں کچھ مریضوں کے لئے اْن کی ایڈوائس لینے کے لئے ہوتیں کچھ اْن سے گپ شپ کا موقع تلاش کرنے کے لئے اور کئی بار اْن سے اخبارات کے لئے تفصیلی انٹرویوز بھی کیے۔ وہ مریضوں سے عموماً کہا کرتے تھے تم لوگ بھی خوب ہو، چمکتی دوپہر میں رات کے اندیشے سے کانپتے رہتے ہو۔ جب کوئی اْنہیں اپنا پرابلم بتاکر اپنی پریشانی اور مشکل کا تذکرہ کرتا۔ تو اْس کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک لیکچر ہوتا۔ اْن کا لیکچر بھی کیا تھا ایک ٹانک تھا۔ وہ کہتے "تم زندہ ہو صرف زندگی کی بات کرو۔ جب تک انسان کے اندر زندہ رہنے کی خواہش رہتی ہے وہ مر نہیں سکتا۔ ڈاکٹر صاحب میں زندگی تھی بھی بہت چمکیلی ان کے انگ انگ سے نشر ہوتی تھی۔ ایک ایک لفظ سے جھلکتی تھی۔ سیاسی نظرئیے میں وہ جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔ پاکستان میں ہونے والی سیاست پر وہ عموماً شاکی رہتے تھے اْن کا خیال تھا کہ معاشرے میں انصاف نہیں ہے اور یہ ایسی کڑوی حقیقت کہ ہم اسے جتنی جلدی سمجھ لیں اْتنا ہی بہتر ہے۔ وہ کہتے تھے دنیا کی کوئی تہذیب رزق روپے اور پسماندگی کی وجہ سے برباد نہیں ہوئی۔ دنیا کی تمام تہذیبیں بے انصافی کے باعث تباہ ہوئی ہیں دنیا کی تاریخ میں آج تک جس ملک نے بھی انصاف کو فراموش کیا وقت اِس کے اوپر سے گزرگیا۔ چونکہ یونیورسٹی کے دور سے مجھے نفسیات کے سبجیکٹ سے لگاؤ تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھتا رہتا تھا کہ آخر یہ نفسیات ہوتی کیا ہے؟ وہ کہتے تھے جس طرح ہر شخص کی کامیابی اور ناکامی کا اپنا معیار ہوتا ہے۔ یہی اْس کی نفسیات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں لائق اور نالائق دونوں برابر ہوتے ہیں قدرت دونوں کو اپنا بندہ سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے لئے دن رات ایک جیسے ہوتے ہیں دونوں کو چوٹ لگتی ہے دونوں کے لئے موسم بھی ایک جیسا ہوتا ہے۔ دونوں کے راستے میں مسائل اور مشکلات بھی آتی ہیں اور دونوں جذباتی، جسمانی، ذہنی اور رْوحانی صدموں سے بھی گزرتے ہیں لیکن نفسیات یہ ہے کہ لائق شخص اپنے فوکس سے نہیں ہٹتا۔ آندھی آئے یا طوفان یہ اپنی کمٹمنٹ اپنے وعدے اور روٹین کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔ لائق آدمی کی کام سے کمٹمنٹ دْکانداروں سے ملتی جلتی ہے۔ نالائق آدمی کام نہ کرنے کا کوئی نہ کوئی جواز بنا لیتا ہے اور یہ بہانے انسان کی ترقی میں سب سے بڑی رْکاوٹ ہوتے ہیں۔ یہی انسان کی نفسیات ہے جو عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں وہ اْس کی نفسیات بن جاتی ہیں کیونکہ یہ اْس کی شخصیت پر حاوی آجاتی ہیں وہ کہتے تھے مجھے بعض لوگوں کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اْنہیں ہر نعمت سے نوازا ہے لیکن وہ پھر بھی افراتفری، انتشار اور پریشانی میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر مبین اختر کی چیریٹی، بے سہاروں کی خدمت، اْردو کی ترقی و ترویج کے لئے کوششوں جس پر کبھی پھر لکھوں گا۔ قابل تقلید انسان دوست جیسی خوبیوںنے اْنہیں ایک باکمال انسان بنادیا تھا وہ اب اس دنیا سے چلے گئے۔ لیکن یقیناً وہ ایک ایسے شخص تھے جن کے قول و فعل میں تضاد نہ تھا۔ ایک دن گفتگو کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ کہنے لگے میں کبھی بھی خود کو پارسا، ایماندار اور درویش ثابت نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ اگر تمام دْکھوں، اذیتوں اور مسائل کے باوجود کوئی شخص خوش و خرم، مطمئن اور مسرور رہ سکتا ہے۔ تو پھر ہم سب کیوں نہیں رہ سکتے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ معاشرے میں رزق حلال کو نہ صرف متعارف کرایا جائے بلکہ اگر ہم سب اس کا عملی نمونہ بننے کی کوشش کریں جو رسول اللہﷺ کی سنت ہے تو ہم اپنے تمام نفسیاتی، جسمانی، ذہنی اور رْوحانی مصائب سے نجات پاسکتے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دْعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین ٭٭٭٭٭