یہ حقیقت ہے کہ تاریخ عالم میں بہت سے بگڑے ہوئے معاشرے سدھرے اور بہت سے سدھرے ہوئے بگڑ گئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے کو ترتیب دیے بغیر کوئی بھی نظام پنپ نہیں سکتا۔صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارا ریاستی نظام مکمل طور پر بے لگام ہو چکا ہے۔جب صدر مملکت کے ٹویٹر پیغام کی دُھائی ساری دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہو کہ پاکستان کے صدر کو ان کے اسٹاف نے دھوکہ دیا ہے توکوئی اور ہم پر کیوں اعتبار کرے گا۔ 25کروڑ آبادی والی ایٹمی مملکت کا سربراہ جو افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہو، بڑی بے بسی سے قسمیں کھا کر کہہ رہا ہو کہ اس نے اسمبلیوں سے منظور شدہ قانون بلوں پر اجرائی دستخط نہیں کئے۔ صدر کا اعتراض اپنی جگہ پر لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر علوی ایک پڑھے لکھے انسان ہیں کوئی انگوٹھا چھاپ نہیں۔کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ تمام دفتری امور میں نچلی سطح سے اوپری سطح تک ہر سرکاری کاغذ پر تحریری نوٹ کے بغیر کام نہیں چلتا۔ کیاانہیں اپنے اعتراضات باقاعدہ قلمبند نہیں کرنے چاہیے تھے اس لئے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے جو فرمایا ہے وہ ہمارے ریاستی نظام کے کھوکھلے پن کو نہ صرف ظاہر کر رہا ہے۔ صدر صاحب خود سوچیں کہ اگر انہوں نے اپنیا فسران کو یہ حکم دیا تھا کہ ان قانونی بلوں کو ان کے دستخطوں کے بغیر لوٹا دیا جائے تو وہ قوانین کیسے لاگو ہو گئے اور انہوں نے ان متعلقہ آفیسران کے خلاف کیا کارروائی کی ۔ صدر علوی نے اپنی پاک دامنی ظاہر کرنے کے لئے جو پیغام دیا اس سے دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت کے بارے میں کیا تاثر قائم ہوا۔میں سوچتا ہوں کہ جب گائیڈ کرنے والے مس گائیڈ کر رہے ہیں تو بحیثیت قوم اور معاشرہ ہم کس قدر خطرناک سفر پر رواں دواں ہیں۔ جڑانوالہ میں جو کچھ ہوااسے دیکھ اور سن کر دل اداس ہو گیا۔ہجوم کو اکسا کر باہر نکالا گیا اور چرچ جلا دیے گئے ۔یہ واقعہ پوری قوم کے لئے شرمناک ہے اگر کوئی واقعہ ہوا تھا تو پوری تحقیق کے بعد اس کے تدارک کا قانونی راستہ موجود تھا۔سویڈن ‘ڈنمارک‘فرانس‘ انگلستان دنیا کے جس حصے میں اگر توہین مذہب کے واقعات رونما ہوئے اور ہو رہے ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسے واقعات کے تدارک کی ذمہ داری انتظامی طور پر فوری ایکشن کے ساتھ ساتھ مذاہب کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہمارا یہ طرز فکر ہمیں بھی مودی کے بھارت کے ساتھ لاکھڑا کرے گا۔ہم کس منہ سے بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا سکیں گے۔ معاشرے میں ایسا بگاڑ کیوں پیدا ہو رہا ہے اس کا سیدھا جواب ہماری صفوں میں تربیت اور کردار سازی کا فقدان ہے۔ اس بگاڑ کوروکنے کی کوشش نہیں کی جا رہی اور اس کی وجہ سے ہم اخلاقی اور معاشرتی طور پر کھائی میں گرتے جا رہے ہیں۔ جو کچھ ہمیں بتایا اور سمجھایا جاتا ہے اس میں تربیت کا نظام ناقص ہے۔ ہم میڈیا ،تعلیمی درسگاہوں ،پارلیمان ،عدلیہ اور اپنے اداروں کو دیکھ لیں ۔ریاست، سیاست جمہوری اداروں،مساجد، خاندان ،معاشرہ کسی کو احساس ہے کہ ہم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو رہے ہیں۔تربیت سازی کا نہ ہونا ہماری ہر خرابی کی جڑ ہے۔ہم نے اپنے بچوں کی تربیت نہیں کی انہیں اچھی تعلیم نہیں دی۔ اچھے برے کی تمیز نہیں سکھائی۔ہم صرف رٹی رٹائی باتیں کرتے رہے ہیں ۔اس میں کردار سازی کا پہلو غائب ہو گیا ہے۔رانی پور میں کمسن ملازمہ کے ساتھ جو ظلم ہوا ،کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے مضافاتی علاقے بھکر گوٹھ میں جس طرح ایک شخص نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹی سمیت ایک نوجوان کو قتل کر دیا،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسے معاشرے میں ممکن تھا جہاں کردار سازی اور تربیت پر نظر رکھنے اور سمجھنے کا رجحان ہو۔ہمارے ہاں سزا اور جزا کا نظام ناکارہ ہو چکا ہے تو نتیجہ تو یہی نکلنا تھا جس کا سامنا ملک کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے لیڈر ون کو اپنی موج مستی اور مفادات کے کھیل کے دائو پیج آزمانے سے فرصت نہیں۔ ہم بڑی تیزی کے ساتھ پستی کے سفر کی طرف گامزن ہیں آخر ہم کیوں نہیں سوچ رہے ،ہم دوسروں کی طرح ایک نارمل ملک کیوں نہیںبن سکے۔ہم غلطیاں کر رہے ہیں اور انہیں بار بار دہرا رہے ہیں۔ پاکستان میں چینی باشندے بھی محفوظ نہیں، انہیں ہدایات دی جا رہی ہیں کہ وہ مقامی لوگوں سے زیادہ رابطہ نہ رکھیں۔ ایک چینی سپروائزر اس لئے ہجوم کے عتاب میں آتے آتے رہ گیا کہ اس نے نماز کے وقفے کے طویل ہونے پر اعتراض کیا تھا لیکن وہ سری لنکا کے کماراسنگا سے زیادہ خود قسمت رہا کہ اسے بروقت تحفظ فراہم کر دیا گیا۔ ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کو کوئی غیر ملکی اپنی چھٹیاں گزارنے ہمارے ملک کیوں آئے گا۔جہاں عام لوگوں کی ذہنی کیفیت ذرا سی اشتعال انگیزی پر بھڑک سکتی ہو۔آپ مصر شام مراکش اردن کے بازاروں میں امریکیوں روسیوں اور یورپین مرد اور خواتین کو چہل قدم کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائشیا بہترین سیاحت مراکز ہیں ۔متحدہ عرب امارات کا معاشرے شریعہ کے نفاذ کے باوجود غیر ملکیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ آئیں اور دبئی میں خریدو فروخت کریں، تفریح کریں ،شاندار سیون اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کی شاندار مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوں۔ ہمارے ملک میں ان کے لئے کشش ہے اس لئے جہاں ہماری مارکیٹوں اور سڑکوں پر غیر ملکی نظر نہیں آتے وہاں ہماری جامعات میں غیر ملکیوں کے داخلے کی شرح کم و بیش صفر ہے۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں دیکھ لیں ہم ہیجان کی کیفیت میں ہیں ۔ہمارے پورے سیاسی منظر میں ریسلنگ رنگ کا سماں ہے کہ عمران خان کب رہا ہونگے، نواز شریف کی واپس کی ہو گی۔ 15سال سندھ پر حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی دوبارہ جلد اقتدار حاصل کرنے کے متمنی ہے تینوں بڑی سیاسی جماعتیں جنہوں نے گزشتہ پانچ سال اس ملک پر حکومت کی حالات سے لا تعلق ہیںِلگتا ہے کہ مہنگائی کا طوفان اور بجلی کے بل سب کچھ تہہ و بالا کر دیں گے۔ان جماعتوں نے ملک کا جو حشر کیا ہے وہ صاف نظر آ رہا ہے۔َسوال یہ ہے کہ عوام آپ کو ووٹ کیوں دیں۔