یہ امرمُسلمہ بھی ہے اور معتبر بھی کہ دینی اقدار وروایات کی پاسداری کے حوالے سے یہ خطّہ از حد حسّاس اور ہمیشہ مستعد اور الرٹ رہتا ہے۔فرائض دین کی ادائیگی میں تو شاید کہیں کوئی کوتاہی سرزَد ہوجائے ،لیکن شعائرِ دین کی عزت و حُرمت کے حوالے سے مفاہمت و مصلحت "Compromise" ممکن نہیں ۔ گزشتہ روز اِس کا اندازہ اور احساس اُس وقت اور زیادہ ہو ا،جب پنجاب قرآن بورڈ کے ایک اجلاس میں مزارات پر قرآنی آیات سے مُرصَّع چادریں چڑھانے پر پابندی عائد کرنے کی ریزولوشن منظور ہوئی،تو معتبر علمی و دینی شخصیات اور موقر اداروں اور تنظیمات کے علاوہ عامۃُ الناس نے بھی اِس کی از حدپذیرائی کی ۔ میرا اپنا محکمہ چادر پوشیوں اور دست بوسیوں سے عبارت ہے ۔مزارات کی خانقاہی رسومات میں چادر پوشی اور دستار بندی عقیدت و احترام کے ساتھ ساتھ ، اعزاز واکرام کی علامت ہے ۔ کوئی بڑا مہمان کسی مزار پر حاضری کی سعادت پائے تو وہ مزارشریف پر چادر پیش کر کے اپنی نیاز مندی اور عقیدت کیشی کا اظہار کرتا ہے ۔ ایسی رسم کی ادائیگی کے لیے نہایت عمدہ،قیمتی چادریں اور گوٹہ کناری و سِلمٰی ستاری سے آراستہ شنیل اور کمخواب کے پارچہ جات کی دستیابی کا اہتمام لازم ہوتا ہے،بعض اوقات جن کی قیمت لاکھوں میں بھی پہنچ جاتی ہے۔مخیر حضرات ایسی چادروں کی تیار ی کافریضہ اپنے ذمہ کیے رکھنے کو باعثِ اعزاز و سعادت جانتے ہیں۔ داتاؒدربا رکے مزار ِ اقدس کے غسل کی تقر یب جو کہ 9 محرام الحرام کو منعقد ہوتی ہے،خانقاہی دنیا میں از حد معتبر اور نمایاں حیثیت کی حامل ہے ، جس میں طویل عرصے سے سینیٹر محمد اسحاق ڈار مزار شریف پر چادر پیش کرنے کی سعادت پاتے ہیں ، گزشتہ رُبع صدی میں مختلف ادوار گزر ے، اقتدار و اختیار کی دھوپ چھائوں بھی رہی، مگر اِن کا یہ معمول متاثر نہ ہوا۔ اِس خاص چادر کو داتاؒ دربار کی اصطلاح میں پوشاک بھی کہا جاتا ہے ۔ بی بی پاکدامناں کے مزار پر پیش ہونے والی چادروں میں خواتین کی عقیدت کا اپنا رنگ بھی غالب ہوتا ہے،دربار حضرت سخی سرورؒ المعروف لعلاں وا لی سرکار، ڈی جی خان کی چادریں زیادہ تر سرخ رنگ اور بعض دس دس میٹر پہ محیط۔ سرِ دست زیر بحث مسئلہ مزار شریف پر ناقص میٹریل کی حامل ایسی چادریں جو کہ بالعموم سبز یا سرخ رنگ میں ہوتی اور ان پر سفید رنگ سے قرآنی آیات اور بالعموم چاروں قُل یعنی سورۃ الاخلاص، سورۃالکفروں،سورۃ الفلق اورسورۃ الناس لکھی ہوتی ہیں، عام قبروں اور مزارات پر کثرت سے چڑھتی اور قبرستانوں میں کھلے عام اور ارزاں ہوتی اور ہمہ وقت آندھی،بارش اور طوفان کی زَد میں رہتی ہیں ،اِن پر مَٹی اور دُھول پڑتی اور بعض اوقات انسانوں اور جانوروں کے پائوں بھی میں آتی ہیں، ایسے توہین آمیز اور دلدوز مناظر نظر سے گزرتے ہیں ۔ الامان و الحفیظ۔ جب یہ چادریں بالکل نئی اور تازہ ہوتی ہیں، تو اس وقت اِن کے حروف سے سفید رنگ کے ذرّات نیچے گرتے اور یوں قرآن پاک کی سرِ عام توہین کا ارتکاب ہوتا ہے اور یہ سب کچھ مسجد ،دربار اور قبرستان میں ہوتاہے ، اس لیے فتوے لگیں تو کس پر---؟ بازپُرس ہو تو کس سے ۔ گزشتہ طویل عرصے سے صاحبانِ درد اِس میں فکر مند رہے ، ہمارے ایک رفیق ِ کار ملک عبد الوحید جو ہمارے محکمے کے ڈائریکٹر فنانس اور گزشتہ دنوں محکمہ زراعت میں ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے ، کی اس ضمن میں خدمات اور توفیقات بھی لائقِ تحسین رہیں۔ یہ معاملہ طویل عرصے سے زیر غور تھا ، لیکن اس پر واضح انتظامی حکم کے اجراء میں ایک تامل اور ہچکچاہٹ سی تھی، جو کہ بالعموم مذہبی اہمیت کے حامل ایسے معاملات کے حوالے سے سرکاری سطح پہ ہوتی ہے۔چنانچہ اِس ضمن میں دارالافتاء جامعہ نعیمیہ لاہور،دارالافتاء جامعہ اشرفیہ اور دارالافتاء دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کراچی سمیت دیگر نمائندہ اداروں سے فتاوٰی جات کا اہتمام عمل میں لایاگیا ۔جس کا خلاصہ یہ تھا کہ: بزرگانِ دین ، اولیاء اُمّت اور صالحین کی قبر وں اور مزارات پر چادریں پیش کرنا جائز ہے،کعبۃ اللہ کو غلاف پہنانا،اس کے جواز کیلیے کافی ہے،جو کہ عز ت،اعزاز، تکریم،شرف اور بزرگی کی علامت ہے۔ بزرگانِ دین کے مزارات پر چادریں اس لیے ڈالی جاتی ہیں کہ عوام کی نگاہ میں ان قبور کی تعظیم ہو،اور زائرین ادب کو ملحوظ رکھیں اور حاضری کے وقت اسکا احساس بھی کریں ۔ بعض فقہاء نے اسمیں مزید اضافہ کیا کہ اسکا مقصد یہ بھی ہے کہ غافل زائرین اَدب اور خشوع کی طرف مائل ہوں ۔ تاہم اسمیں اِفراط اور بے اعتدالی جائز نہیں۔ جیسے بعض اوقات ڈھول کی تھاپ پر،سڑکوں پر ٹولیوں کی صورت میں،چادروں کو جلوس کی شکل میں اُٹھاکر، ناچتے گاتے مزار کیطرف جانا،جائز نہیں۔چادروں کے نام پہ لوگوں سے پیسے بٹورنا اور چندے اکٹھے کرنا بھی جائز نہیں۔چادروں پہ قرآنی آیات یا کلمہ طیبہ لکھا ہو،اس لکھے ہوئے حصّے کو بے وضو چھونا جائز نہیں۔اسی طرح چادر تیار کرنے،فروخت کرنے،خریدنے اور پھر مزارات پر چڑھانے والے---غرض سب کا اِن مقدس کلمات کے لکھے حصّے کوبے وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ اسی طرح پریس میں قرآن کریم کی طباعت،جز بندی اور جلد بندی کے پراسیس میں ورکرز اور کاریگر وں کو باوضو ہوکر کام کرنا چاہیے ۔ ان فتاوٰی جات کے مطابق ان چادروں کو بازاروں میں فروخت کی نیت سے لٹکایا جانا بھی ادب کے تقاضوں کے منافی ہے ۔کیونکہ قرآن پاک کو صاف جگہ پہ با ادب طریقے سے رکھنے کا حکم ہے، نہ کہ سرِبازار لٹکانے کا۔ اس سے بے ادبی ہوتی ہے اور پھر بازار میں ان مقدس چادروں پر گرد و غبارکا پڑنا بھی لازم ہے، جوکہ ادب کے منافی ہے ۔ گویا قرآنی آیات و اسمائے مقدسہ کی حامل اِن چادروں کو مزارات پر ڈالنے سے،قرآنِ مجید اور اسمائے مقدسہ کا ادب ملحوظ رہنا ممکن نہیں رہتا ،لوگ اپنی لاعلمی کے سبب بے ادبی کے مرتکب ہوتے اور محرومی پاتے ہیں ۔ بنابریں ان پر پابند ی کا عائد ہونا وقت کی اہم ضرورت تھی ۔ بعض اوقات مزارات میں اِن چادروں کو آنے والے زائرین کے گلے میں ڈالاجاتا ہے، جس کوبالعموم صحیح طریقے سے سنبھالا نہیں جاتا ۔ بعض اوقا ت کسی غیر موزوں مقام پر رکھ دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح مزارات کے خادم اور کیئر ٹیکرجس طرح اِن چادروں کی گھٹڑیاں باندھ کر سٹور میں رکھتے ہیں ، وہ بھی شایانِ شان نہیں ہوتا۔ ایک اور اہم اور نازک مسئلہ یہ کہ اِن چادروں پہ لکھائی میں استعمال ہونے والا سفید رنگ اور پارہ، جس سے مقدس آیات کی لکھائی ہو تی،اب وہ بھی مقدس تھی ، لیکن چادر کو کھولنے،اُٹھانے اور پکڑنے میں اِسکا گرنا اور پھر پائوں تلے آنا، صریحاً بے ادبی اور از حد محرومی کا باعث ہے ۔ یعنی اس پارے اور سفیدے کا زمین پہ گرنا جائز نہیں ۔چنانچہ لازم ہے کہ اس بے ادبی اور محرومی سے بچنے کے لیے مزارات پر سادہ چادریں ڈالی جائیں ۔ اٰیاتِ قرآنیہ اور اسمائے مبارکہ والی چادریں نہ ڈالی جائیں۔ چنانچہ اس ضمن میں محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب انشاء اللہ !اپنی ذمہ داری پوری کرے گا۔ اس سلسلے میں اِن چھاپہ خانوں سے بھی درخواست کی جائے گی، جہاں یہ چادریں تیار ہوتی ہیں اور پھر جو لوگ اس کو فروخت کرتے ہیں ،ان کو بھی’’آن بورڈ‘‘لیا جائے گا۔ از خود مزارات کے کیئر ٹیکرز اور نگران بھی ایسی چادروں کو مزارات پہ پیش کرنے سے اِعراض کریں گے۔علماء اور خطباء اپنے خطبوں میں اس بابت پندونصائح کریں گے ۔ گزشتہ طویل عر صے سے جاری اس عمل کو بہتر بنانے میں تدریج کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور انشاء اللہ سرخروئی ہوگی ۔