جارج آرویل نے سیاست اور جھوٹ کے گٹھ جوڑ پر لازوال تبصرہ کیا تھا کہ ’’ سب سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں اور اس طرح کہ ان کے جھوٹ پر سچ کا گمان ہوتا ہے ان کے قتل بھی قابل عزت محسوس ہوتے ہیں"سیاست میں جھوٹ بولنا سیاست دانوں کا موثر ہتھیار رہا ہے جس کے ذریعے وہ عوام جذبات سے کھیلتے ہیں اور اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں۔سچ کو جتنا خطرہ اس دور میں ہے شاید کبھی بھی نہیں تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم جسے صریحاً جھوٹ کہتے ہیں وہ ان کے نزدیک ان کی رائے اور نظریہ ہے۔ یہpost- truth ہے کہ ایک طرف سچائی اور حقائق ہیں اور دوسری طرف سیاستدانوں کی۔مفاد پر مبنی خواہشات اور اپنے موقف کو سپورٹ کرتی رائے ہے۔ پوسٹ ٹروتھ پولٹیکل منظر نامے میں سچائی فرد کی ذاتی رائے سے شکست کھاتی ہے اور حقائق گھڑے ہوئے جھوٹ سے ہار جاتے ہیں۔ پوسٹ ٹروتھ کو 2016 میں ورڈ آف دا ائیر قرار دیا گیا ۔آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کا مطلب یوں تحریر ہے ۔ relating to or denoting circumstances in which objective facts are less influential in shaping public opinion than appeals to emotion and personal belief. پوسٹ ٹروتھ کی اصطلاح سب سے پہلے 1992میں ایک امریکی ڈرامہ نگار نے اپنے ڈرامے میں استعمال کی تھی جس کا مطلب اس کے سیاق وسباق میں سچ کے بعد کی صورتحال تھا جو آج کی پوسٹ ٹرو تھ کے معنی سے مختلف ہے۔ٹیکنالوجی اور سوشل۔میڈیا دور میں پوسٹ ٹروتھ ان پولٹیکلس کا مطلب جھوٹی خبریں پھیلانا،اپنے مفاد کے لیے گھڑے ہوئے واقعات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنی خواہشات کی شکل میں ڈھال کر اپنے فالورز کے سامنے پیش کرنا اور ان میں جذباتی ہیجان پیدا کرنا ہے تاکہ حالات اقتدار تک پہنچنے کے لیے موافق ہو جائیں۔پوسٹ ٹروتھ وار کے ذریعے سچ کا قتل سماج میں حقائق کے متعلق ابہام پیدا کر کے کیاجاتا ہے۔ ابہام سے اگلی منزل یہ ہے کہ جھوٹ پر مبنی چیزوں کو اس طرح پھیلایا جائے کہ وہ لوگوں کو سچ دکھائی دینے لگے۔ سیاست میں سیاستدانوں کو ایک بیانیہ ترتیب دینا ہوتا ہے۔ جس بیانیہ سے وہ اپنے فالورز کے دلوں میں اپنی جماعت کی ہمدردیاں ڈالتے ہیں۔لیکن اس وقت اخلاقیات اور اصول کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ جب سیاستدان۔جھوٹ پر ہی اپنے بیانیے کی بنیاد رکھتے ہیں۔مگر ایک سیاسی جماعت کا طرز سیاست پوسٹ ٹروتھ وار ایک عمدہ مثال ہے۔حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے جھوٹ گھڑنا اور پھر اس جھوٹ پر مبنی بیانیہ کو ترتیب دینا پھر اس بیانیے کی اتنی تکرار کرنی کہ لوگ اس جھوٹ پر سچ کا گمان کرنے لگیں۔ رجیم چینج کے بعد یہاں کاغذلہرائے گئے ،بتایا گیا کہ یہ خط جو امریکہ کی طرف سے آیا اور ہماری حکومت ان کے کہنے پر ختم کی گئی۔حقائق اور سچائی سے دور اس بیانیہ کوسوشل میڈیا بریگیڈ نے خوب پھیلایا۔امریکہ سے تردید کی صورت واضح ردعمل آیا۔ لیکن ان کے فالوورز اس کو سچ ماننے پر تیار نہیں تھے۔ان کے لیے سچ وہی تھا جو ان کے لوگوں نے کہا۔ رفتہ رفتہ جب انھیں محسوس ہوا کہ وہ اس بیانیے سے بلاوجہ کی مشکل میں گرفتار ہورہے ہیں۔تو انہوں نے اپنے ہی گھڑے ہوئے جھوٹ سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ۔پھر کانگریس رکن سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے وہ آڈیو بھی منظر عام پر آگئی، جس نے ہم کوئی امریکہ کے غلام ہیں کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔سیاست میں پوسٹ ٹروتھ کی یہ بہت ہی واضح مثال ہیں۔اس جھوٹ پر مبنی بیانیے کو بنانے کا مقصد اپنے فالوورز میں ہیجان پیدا کرنا تھا اور اپنے حق میں ہمدردی کو فروغ دینا تھا جس میں وہ یقیناً کامیاب رہے اور رجیم جینج ہونے کے بعد وہ جو بیڈ گورننس کی وجہ سے حکومت میں رہتے ہوئے اپنی مقبولیت کھو رہے تھے سائفر بیانیہ گھڑنے کے بعد مقبول ہونے لگے۔سانحہ نو مئی میں ملوث شر پسندوں کی گرفتاریاں شرو ع ہوئیں۔جلاؤ گھیراؤکی شر پسند سر گرمیوں میں ملوث خواتین کو بھی جیلوں میں بھیجا گیا۔ لیجے انھوںنے جھوٹ پر مبنی ایک نیا پروپیگنڈا شروع کردیا کہ جیلوں میں ان خواتین کے ساتھ جنسی تشدد ہورہا ہے۔کاش کوئی ان سے پوچھتا کہ ان کے اس غیر ذمہ دارانہ جھوٹے بیانیے سے ان کی پارٹی کی خواتین کی زندگیاں سماجی اعتبار سے ناقابل بیان تکلیف سے دوچار ہوسکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت یہ جھوٹا پروپیگنڈا جاری تھا کہ جیلوں میں عورتوں سے بد سلوکی ہو رہی ہے، اس وقت جیل انتظامیہ خواتین کی بیریکس میں ایئر کولر نصب کرانے میں مصروف تھی۔ان کے جھوٹے پروپیگنڈا سے ذہن میں یہی تصویر بنتی ہے کہ جیل میں موجود خواتین برے حالوں میں زمین پر بیٹھی ہیں جبکہ جیلوں میں تمام قیدی خواتین کے پاس چارپائیاں ہیں اور ان کی بیریکس میں ایئر کولر لگے ہیں۔جیل کی طرف سے کھانا اور چائے ان کو میسر ہے۔ یہ فلموں والی جیل نہیں، جس میں تین ٹائم قیدیوں کو پتلی دال کھلائی جاتی ہے ۔پنجاب کی جیلوں میں ہفتے میں کم از کم پانچ دفعہ مرغی کا گوشت کھانے کو ملتا ہے۔دو وقت ڈاکٹر اور سائیکالوجسٹ رائو نڈ لگاتے ہیں۔مگر پوسٹ ٹروتھ وار کا کیا کیجیے کہ فالورز کسی طور ماننے کو تیار نہیں لیڈر نے کہہ دیا کہ تشدد ہوتا ہے تو بس ہوتا ہے سچ اور حقیقت جائے بھاڑ میں !سو سوشل میڈیائی بریگیڈ جھوٹ در جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہے۔سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پوسٹ ٹروتھ وار میں سچ جھوٹ سے شکست کھا جائے گا اور گھڑے ہوئے جھوٹے بیانیے حقائق کو مسخ کرکے رکھ دیں گے؟کیا پوسٹ ٹروتھ ایرا میں لوگ جھوٹ ہی پر اکتفا کرنے لگیں گے اور کسی میں سچ جاننے کی خواہش بھی نہیں رہے گی؟