کاشف شہر اولیاء ملتان میں ریڑھی پر دہی بھلے بیچنے والا محنت کش ہے، اس نے 13 ہزار روپے بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے گھر کا سامان بیچ دیا۔ 40 سالہ محمد کاشف دہی بھلے فروخت کر کے اپنے 3 بچوں کا پیٹ پالتا ہے، لیکن 13 ہزار روپے بجلی کا بل دیکھ کر اسکی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا کاشف نے بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے ریڑھی کا سامان بھی فروخت کر دیا۔اس کا کہنا ہے کہ دو وقت کی جگہ ایک وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے، اگر دوبارہ بجلی کا زیادہ بل آیا تو کیا کرے گا؟ اس طرح کی کہانیاں ان دنوں وطن عزیزمیں عام ہیں بلکہ صورتحال اس سے بھی زیادہ بھیانک ہو چکی ہے ۔ متعدد غریب بجلی کے بلوں سے تنگ آ کر خودکشی کر چکے ہیں۔ کوئی دوکان کا سامان فروخت کر کے بجلی کے بھاری بھرکم بل ادا کر رہا ہے تو کسی نے موٹر سائیکل فروخت کر کے بجلی کے بل ادا کیا پے۔ پاکستان میں اس وقت بجلی واقعی بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہے اور اس کا کریڈٹ سابق پی ڈی ایم سرکار کو جاتا ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد نے ملک کی ملک کی معشیت کا جنازہ نکالا جبکہ یہ حکومت ملک سے مہنگائی ختم کرنے کے نام پرآئی تھی لیکن اس نے 76 سالہ تاریخ کے ریکارڈ توڈ دیئے۔ وطن عزیز میں اس قدر شدید مہنگائی ہے کہ عوام کسی سیاسی جماعت اور لیڈر کے بغیر سڑکوں پرسراپا احتجاج ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر احتجاج میں اضافہ ہو رہا ہے۔عوام کے غصہ کی شدت کو محسوس کرنے کے بعد ن لیگ نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی متعدد کوششیں کیں مگر عوامی رد عمل پر بری طرح ناکام ہوئی۔کسی سیاسی جماعت پر زیادہ تنقید کے نشتر نہیں برسانا چاہتا کیونکہ مطمع نظر عام پاکستانی ہے جبکہ ان فرسودہ اور روایت پسند جماعتوں کے پاس باقی بھی بچا ہی کیا ہے؟ عوامی حمایت تک سے محروم ہو چکیں۔ عوام کے احتجاج میں تاجر تنظیموں نے بھی شمولیت اختیار کر لی ہے۔ آج 2 ستمبر کو ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ بعض تاجر تنظیموں اور سول سوسائٹی کے فعال ارکان کی جانب سے پہیہ جام پڑتال کا عندیہ بھی دیا گیا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق شٹر ڈاؤن ہڑتال کی صورت میں پورے ملک میں عوام اور تاجر اپنے غم و غصہ کا اظہار کریںگے، نگران حکومت جو یہ کہتی اور سمجھتی ہے کہ ایک تو الیکشن کا انعقاد ان کا کام نہیں اور دوسرا وہ آئینی مدت کے تعین کے برعکس فروری تک نظام کار حکومت کو با احسن طریقے سے سر انجام دے لینگے۔ نگران وزیراعظم نے عوامی رد عمل پر نوٹس لینے کے بعد چند بے نتیجہ اجلاس منعقد کیے، پہلے عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے اعلان کیا گیا کہ مفت بجلی کے مزے لوٹنے والے گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے سرکاری ملازمین سے یہ سہولت واپس لے لی جائیگی، اس اعلان پر عمل نہ ہوسکا تو 400 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کیلئے 240 ارب کے لگ بھگ ریلیف پیکج پر کام کرنے کی امید عوام کو دلوائی گئی۔ نگران حکومت کے اختیارات میں چونکہ سابق پی ڈی ایم سرکار نے کچھ اضافہ اپنے بلز پاس کرنے کی رم جھم کے دوران کردیا تھا لہذا نگرانوں نے آئی ایم ایف سے اس ضمن میں بات چیت کی ہے، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ تاہم نگران وزیراعظم اعظم انوار الحق کاکڑ کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ جو خرابی کے ذمہ دار ہیں، وہ سیاست کر رہے ہیں، اگر میں نے الیکشن لڑنا ہوتا تو میں بھی سیاست کرتا، نگران وزیر اعظم نے میڈیا سے جو گفتگو کی ہے، ذرا اس کو دیکھ لیں۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ آئندہ 48 گھنٹوں میں بجلی بلوں پر ریلیف کا اعلان کریں گے، تمام اداروں سے پوچھا ہے کہ کتنی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں، فوج ایک یونٹ بھی مفت بجلی استعمال نہیں کرتی، انہوں نے کہا کہ بجلی بلوں کا مسئلہ ضرور ہے لیکن یہ امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے، بجلی کے بلوں کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ شام کو مہنگی ترین بجلی استعمال کرکے توانائی کا نقصان کیا جاتا ہے، ملک میں توانائی بچانے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ الیکشن تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن تاریخ پر سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی، اس کا احترام کریں گے۔ لاپتہ افراد سے متعلق نگراں وزیراعظم نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ پیچیدہ ہے، عمران ریاض خان کے حوالے سے عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بات کرنے کا قائل نہیں، نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی، حساس معاملات کو مدنظر رکھ کر نادرا قوانین میں ترمیم کی گئی، نادرا کا چیئرمین فوجی لگانے کی وجہ بھی یہی حساس معاملات ہیں۔ نادرا چیئرمین کے فرائض کے لیے اسپیشلائزڈ پروفیشنل کی ضرورت تھی". جب میں نگران وزیر اعظم کے اس بیان کو ٹی وی سکرین پر سن رہا تھا تو گھڑی کی ٹن ٹن نے رات کے بارہ بجنے کا پتا دیا اور ٹی وی سکرین پر یہ ٹکر چلنے لگا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر بڑا اضافہ کردیا گیا، پٹرول 14.91 اور ڈیزل 18.44 روپے فی لیٹر مہنگا کردیا گیا، ٹی وی سکرین پر یہ ٹکر جیسے ہی چلا، اس وقت نیوز کاسٹر خاتون خبر پڑھ رہی تھیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ، ڈالر کی ایک مرتبہ پھر اونچی اڑان اور سٹاک مارکیٹ میں مندی وغیرہ وغیرہ، پوری قوم کو اسی طرح ہر وقت خدشات لاحق رہتے ہیں اور اگر کسی سے امید چھین لی جائے تو اس انسان یا قوم کی زندگی، زندگی نہیں رہتی اور یہی حال اس وقت مادر وطن میں غریب اور مڈل کلاس کا ہے، اس صورتحال کو شائد کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا، نہ حکمران، نہ سیاستدان! سو عوام بغیر کسی قیادت کے سڑکوں پر ہے، سب کو یاد رکھنا ہوگا کہ بے لگام اور بے سمت ہجوم کے بارے میں تاریخ کے ہر دوراہے پر گواہی ملتی ہے کہ ان کا اگلا قدم خانہ جنگی اور سول نافرمانی کی طرف ہوا کرتا ہے۔ بااختیار جس عوامی ہجوم سے سیاست نکالنے کے متلاشی ہیں، انھیں ادھر سے کچھ ملنے والا نہیں۔ میر تقی میر کو کسی نے پڑھا نہی "پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔۔۔۔۔جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے". ٭٭٭٭٭