کراچی کی طالبات نے مریضوں کو جلد از جلد طبی سہولت کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اسمارٹ وینٹی لیٹر تیار کیا ہے، یہ ایک بڑا کارنامہ ہے، جس سے طالبات کی صلاحیت بھی اجاگر ہو کر سامنے آتی ہے، علیگڑھ یونیورسٹی کراچی کی ذہین طالبہ سیدہ دعا ہاشمی نے نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ یہ وینٹی لیٹر کیسے کام کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ اسمارٹ مکینکل وینٹی لیٹر ہے جو ہم 8 طالبات نے مل کر بنایا ہے، یہ مکمل طور پر وینٹی لیٹر نہیں ہے؛ یہ ایک موبائل ایپ کے ذریعے بلیو ٹوتھ سے کنکٹ کی ہوئی ڈیوائس ہے, انہوں نے کہا کہ جو پریشرپھیپھڑوں کو درکار ہوتا ہے؛ چاہے وہ کسی بھی عمر کے افراد میں ہوں تو یہ اسمارٹ وینٹی لیٹر ایمرجنسی کی صورت میں فرسٹ ایڈ کے طور پر انہیں مہیا کرتا ہے، سیدہ دعا ہاشمی نے بتایا کہ ہم نے یہ ڈیوائس کالج ایگزہبیشن کیلئے تیار کیا تھا اور اس کو بنانے میں تقریباً دو ماہ لگے اور اس پر 30 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اسے گھر میں بھی با آسانی استعمال کیا جاسکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش کے کہ کوئی کمپنی ہماری اس پروڈکٹ پر کام کرے اور اسے آگے لے کر جائے، افسوس کہ پاکستان میں اس طرح کی بڑی کاوشوں کے باوجود مطالبات کرنے پڑتے ہیں کہ مزید ریسرچ کیلئے فنڈز کی ضرورت ہے یا کوئی بڑی کمپنی اس کی سرپرستی کرے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی کوئی غیر معمولی کاوش سامنے آئے تو طلبا و طالبات کی حد سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ان غیر معمولی دماغوں کو غیر معمولی مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں، پھر ان کی عملی زندگی میں ترقی کی رفتار ناقابل یقین تو بنتی ہی ہے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں سے معاشرہ بھی غیر معمولی نوعیت کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ اگر کوئی جاپانی فلسفہ فکر کا بغور جائزہ لے تو سمجھنا زیادہ دشوار نہ ہوگا کہ سیاست، حکومت، معاشرت میں ان کی مثبت سوچ کی بدولت ایشیا میں ان کی معاشی ترقی نا قابل یقین ہے، ایڈورڈ ڈی بونو نے کی ایک کتاب 6 تھنکنگ ہیٹس اس سلسلہ میں میں کاآمد ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں غیر معمولی صلاحیت کی حامل نوجوان نسل کوبے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ آبادی کی فعال اکثریت اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ ان کا پاکستان میں کوئی مستقبل ہے، سیاست اور خودنمائی کے شوق میں چاہے کوئی اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرے مگر زمینی حقائق اسی بات کی چغلی کھاتے ہیں۔سیاست آخر کار عملیت پسندی کی متقاضی بن جاتی ہے جس کا زمانہ انتخاب میں وعدہ کیا جاتا ہے لیکن ہمارا سب سے بڑا سیاسی بحران ہی قول و فعل میں تضاد کا ہے۔سیاسی بلیک میلنگ کا مسئلہ الگ ہے ۔پاکستان کے ذہین دماغ آج کے کھٹن دور میں بھی پنپ رہے ہیں ۔علیگڑھ یونیورسٹی کراچی کی طالبات صلاحیتوں کی حامل بچیوں کو قوم کا خراج تحسین پہنچنا چاہیے، قوم کی بے حسی بھی اس تناظر میں نظر انداز نہیں کی جاسکتی، دراصل جب کسی سے امید کا ہتھیار چھین لیا جائے، وہ صرف اپنی ذات کی پہچان سے محروم نہیں ہوتا بلکہ معاشرے سے بھی لاتعلق ہو کر اچھائی برائی کے جذبے کو پہچان نہیں سکتا، وطن عزیز میں قوم کو اس پستی تک پہنچانے میں حکومتوں اور ذمہ داران نے 76 برس اپنی ذات کی بت کو تراشا ہے۔کراچی کی ہونہارطالبات کی ایک بڑی کاوش نے ازسر نو میرے وجود کو جھنجوڑا ہے، افسردہ ہوں؛ میرے سامنے گلف نیوز کا 23 اگست 2023 کا آن لائن ایڈیشن کھلا پڑا ہے، جس میں ایک خبر کی انگریزی میں سرخی ہے "رواں سال کے سات ماہ کے دوران 4 لاکھ 50 ہزار پاکستانی اچھی نوکریوں کی تلاش میں پاکستان سے باہر بیرون ملک چلے گئے". ان میں کتنے ذہین دماغ کراچی کی ان طالبات جیسے ہونگے، ہوسکتا ہے کہ ان سے بھی زیادہ قابل کئی ذہین چلے گئے ہوں مگر کسی کو کوئی فکر نہیں؟ اصل غم یہ ہے، نگران وزیراعظم سے گزشتہ ہفتے اس بارے میں سوال ہوا، فرمایا: یہ کوئی بری بات بھی نہیں، اب کیا کہیں! گلف نیوز کی خبر میں امیگریشن بیورو کے اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان 450000 پاکستانیوں میں سے 12 ہزار 787 افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان سے برین ڈرین ہو رہا ہے، 26 ہزار 405 پاکستانی انتہائی ہنرمند قرار دئیے گئے جبکہ ایک لاکھ 64 ہزار 155 ہنر مند افراد کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں، ایک لاکھ 98 ہزار غیر ہنرمند افراد بیرون ملک جانے والوں میں شامل ہیں، جن کو اچھے روزگار کی صورت میں سنہری مستقبل کی امید ہے۔لیبر کے علاوہ کاشتکار، تعلیمی ماہرین، ڈاکڑز، انجینئرز، آئی ٹی سپیشلسٹ اور اکائونٹنٹس وغیرہ بیرون ملک بری تعداد میں جا چکے ہیں،۔سب سے زیادہ پاکستانی یعنی 2 لاکھ 5 ہزار اور 515 نے سعودی عرب، ایک لاکھ 21 ہزار 745 نے متحدہ عرب امارات، 34 ہزار 140 نے اومان، 35 ہزار 637 نے قطر، 7 ہزار 441 نے بحرین کا رخ کیا، 16 ہزار 166 پاکستانی ملائشیابھی گئے، چائنا میں 990 پاکستانی پہنچے، ساؤتھ کوریا، جاپان، جرمنی، برطانیہ، گریس، اٹلی، رومانیہ اور سائیپریس بھی متعدد ہم وطن جا پہنچے ہیں، گزشتہ برس پی ڈی ایم سرکارمیں 2016 کے بعد بڑی تعداد میں 8 لاکھ 30 ہزار پاکستانی بیرون ملک چل دئیے، 2016 میں 8 لاکھ 39 ہزار 353 جبکہ 2015 میں 9 لاکھ 46 ہزار 571 پاکستانی بیرون ملک گئے، یہاں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ 2018 سے 2021 تک پاکستانیوں کی بیرون ملک بہتر روزگار کی تلاش میں جانے والوں کی تعداد میں واضح کمی سامنے آئی، اگر حکومت نے ملک میں معاشی و اقتصادی پالیسیوں کو بہتر نہ کیا، مزید پاکستانیوں کو بیرون ملک جانے سے روکنے کیلئے پرکشش حالات پیدا نہ کیے اور جو لیبر فورس بیرون ملک جا چکی ہے، اسے واپس لانے میں ناکام رہی تو ملک کی ترقی میں ہنرمند لیبر فورس اور قابل و ذہین دماغوں کا فقدان بہت بڑا بحران پیدا کر دے گا، آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے: مٹھی بھر اشرافیہ کو عوام کا اسکا حق دینا پڑے گا، کراچی کی طالبات کا سمارٹ وینٹی لیٹر جیسا کارنامہ دراصل ملکی ترقی کا وہ راز ہے، جسے 76 برسوں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔