اسوقت جب ہمارا میڈیا دنیا بھر میں نئے سال پر ہونے والے جشن اور آتش بازی کے رنگارنگ پیکج دکھا رہا تھا اس وقت پچاس سے ساٹھ فیصد پاکستانیوں کے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ خطرناک انداز میں مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سامنے ان کی تیزی سے سکڑتی ہوئی آمدنی اور مشکل تر ہوتی زندگی کے مسائل کا ادراک ان سیاستدانوں کو آخر کب ہوگا۔غریب پاکستانیوں کا ایک طبقہ تو اب ایک وقت کی ڈھنگ کی روٹی بھی کھانے کے قابل نہیں رہا۔مخدوش ترین معاشی صورتحال میں بھی پی ڈی ایم کے حکومتی بندوبست میں مشیروں اور وزیروں کی ایک پلٹون بھرتی کر لی گئی ہے۔ حکومتی اتحاد میں ایک کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ وفاق ہو یا پنجاب حکومتی سیٹ اپ، اپنے سیاسی اتحادیوں کو مطمیئن کرنے کے لئے ان کے لوگوں کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے تک رسائی دی جارہی ہے ۔وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن کا کام سوائے طفیلیوں کی طرح ملکی وسائل پر پلنے کے اور کیا ہوتا ہے۔ سیاسی دلدل بڑھتی جاتی ہے معاشی حالت مخدوش ہے ۔آڈیو ویڈیو لیکس کی غلاظت سے تعفن اٹھ رہا ہے ۔ عوام مشکل میں ہیں مگر اشرافیہ کے لیے اب بھی راوی سکھ چین لکھتا ہے ۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں یا تو ملک کی سیاست کی گندگی کو موضوع گفتگو بنائے رکھیں ،یہ ایک ایسا پیاز ہے جس میں ہر چھلکا مایوسی در مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں اور اپنے آس پاس کے ماحول سے کریں۔بدقسمتی یہ ہوئی کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہمارا معاشرہ سیاسی طور پر آلودہ ہو چکا ہے ۔ معاشرے میں پولر ائزیشن بڑھ گئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو دیکھ لیں اسی فیصد سے زیادہ پروگرام سیاست کے گرد گھومتے ہیں۔ مختلف سیاسی مخالفین کو بلاکر ٹاک شوز میں سوائے تو تکار اور الزامات کے کچھ نہیں ہوتا جبکہ پروگرام کا میزبان جو اب اینکر ہوچکا ہے اس کا کام جلتی پر تیل ڈالنا ہے تاکہ بحث کا الاؤ بھڑکا رہے اور پروگرام کی ریٹنگ بڑھتی رہے۔ ہر چینل پر یہ سودا کسی نہ کسی صورت بیچا جاتا ہے۔ ایسے پروگراموں کے موجد ایک نامور صحافی ہیں ۔پروگرام کا یہ فارمیٹ اس وقت شروع ہوا جب پاکستان میں نجی چینلز کی مشرومنگ شروع ہوئی۔ ایک بڑے میڈیا گروپ کے ٹی وی چینل نے اس پروگرام کا آغاز کیا تو بعد میں آنے والے تمام ٹی وی چینلز نے اسی فارمیٹ پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھا۔مخالف سیاستدانوں کو بٹھا کر تیتر اور بٹیر کی لڑائی کروانا اور پروگرام کی ریٹنگ حاصل کرنا، یہ تھا وہ نیوز میڈیا کا سٹائل جو گزشتہ 20، بائیس سال سے فیشن میں رہا ۔ مجال ہے کہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ موضوعات پر گفتگو ہوتی ہو۔ پروگرام میں سوائے الزامات، بحث و مباحثے کے کچھ نہیں ہوتا۔ سکرین پر مخالف سیاستدان ایک دوسرے کے جانی دشمن دکھائی دیتے ہیں مگر آف دا سکرین آپس میں شیر و شکر نظر آتے ہیں۔ کیونکہ آ جا کے دونوں کا تعلق اختیار ،طاقت اور اشرافیہ کے طبقے سے ہے۔ دونوں کے مفادات ایک نکتے پر جمع ہوجاتے ہیں جبکہ ہمارے بھولے ناظرین کے دماغوں کو ایسے ٹاک شوز رفتہ رفتہ زہریلا کرنے لگتے ہیں۔ ان کے رویوں میں بھی یہ عدم برداشت اور عدم رواداری کا عکس دکھائی دینے لگتا ہے۔جب وہ اپنی نجی محفلوں میں اپنے سیاسی نقطہ نظر کو اسی شدت سے بیان کرنے جاتے ہیں۔ اپنے رویوں میں کہیں بھی رواداری اور مخالف کے نقطہ نظر کے حوالے سے برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ وہ یہی دیکھتے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے یہ رویے اپنے اندر جذب کر رہے ہیں ۔ایک پوری نسل یہ دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہے۔نئے ہزاریے کے آغاز پر ٹی وی چینل کی مشرومنگ میں ایک خوش آئند بات تھی، لوگوں کو روزگار ملا، صحافت میں نئے امکانات کے در وا ہوئے۔ میڈیا کاروبار ہی سہی لیکن ذمہ داری کا تقاضا یہ تھا کہ پرائم ٹائم جو سات سے گیارہ بجے تک ہوچکا ہے اس وقت کا کچھ حصہ پاکستانی عوام کو شعور دینے، معاشرے کو تہذیب یافتہ بنانے پر صرف کیا جا سکتا تھا۔ اپنے لوگوں کو ہم رواداری سکھا سکتے ،کسی قوم کی نفسیات دیکھنی ہو تو اس کی ٹریفک کو دیکھ لینا چاہیے ۔ہمارے ہاں اگر ٹریفک کانسٹیبل نہ کھڑا ہو ،ٹریفک کا رش ہو تو پھر نظر آتا ہے کہ لوگوں میں برداشت نہیں ، ہر کوئی صرف اپنا کام نکالنا جانتا ہے۔میڈیا کی ایک خوبی یہ ہے کہ کم پڑھے لکھے شخص تک بھی پیغام پہنچ سکتا ہے۔اس طاقت کو استعمال کرکے لوگوں کو سکھایا جاسکتا تھا کہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر زندگی کیسے بسر کرنی ہے ۔ہمیں تو چھوٹی چھوٹی باتیں سیکھنے کی ضرورت ہے کہ سڑک پر کیسے چلنا ہے، راستہ کیسے دینا ہے ،مخالف نقطہ نظر کو برداشت کیسے کرنا ہے۔اوپر بیان کردہ تلخ حقائق سے سیاست،معیشت اور معاشرت کی تصویر بگڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ان حالات کی اس بدصورتی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ پاکستان کا وہ نوجوان ہے جو کم وسیلہ، سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو روشن مستقبل کے خواب تو دیکھتا ہے مگر خوفناک حد تک ناانصافی اور معاشی عدم استحکام کے پروردہ معاشرے میں وہ اپنے آپ کو تہی دست پاتا ہے۔اب تو عالم یہ ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بھی پاکستان کے کرپشن زدہ ،کمزور اداروں اور سیاسی عدم استحکام سے مایوس ہوکر بیرون ملک جانے کا خواہش مند ہے ۔میری پچھلے دنوں جتنے بھی نوجوانوں سے ملاقات ہوئی سب ہی باہر جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی صورتحال کی ابتری ان کے اندر مایوسی پیدا کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال کئی لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہورہے ہیں لہذا پاکستان کو ہر سال 10 لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ لگی ہوئی نوکریاں ختم ہورہی ہیں۔ نئے ہزاریے کی پہلی دو دہائیاں گزرنے کے بعد ہم اب تیسری دہائی کے تیسرے سال میں داخل ہو چکے ہیں۔ نہ جانے سیاست، معیشت، معاشرت کی بگڑی ہوئی صورت کب بہتر ہوگی؟