برسوں پہلے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سرسبز لان میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ غیر رسمی ادبی اکٹھ میں یہ شعر بہاولپور کے ایک مقامی شاعر سے سنا : وہ بھی میلے دل سے ملنے آتا ہے ہم بھی کھل کر استقبال نہیں کرتے افسوس کہ شاعر کا نام کوشش کے باوجود یاد نہیں آیا ۔ انسانی تعلقات اور رشتوں میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔کہیں بد گمانیاں تو کہیں توقع اور امیدوں کے چمکتے ماہتاب تعلق کے سمندر میں مدوجزر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہی مدوجزر ہمارے آپس کے رشتوں اور میل ملاقاتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یوں تو ہر ملاقات کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ہم اپنے بے تکلف دوستوں سے محبت کے ساختہ اظہار کے ساتھ ملتے ہیں جبکہ کسی ایسے تعلق دار سے ملنا ہو جس سے ربط وضبط آفیشل ہوتو ملنے میں بے ساختگی کی جگہ لحاظ اور تکلف آجاتا ہے۔ ہمارے دین میں تو بیمار سے ملنے کے بھی آداب بتائے گئے ہیں کہ عیادت کے لیے جا ئیں تو بیمار کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھیں، جتنی دیر بیٹھیں بیمار کی دلجوئی کریں نا کہ اسے اس بیماری سے مرنے والے لوگوں کی کہانیاں سنائیں۔ تحفے میں کچھ پھل یا پھول لے جائیں اور اگر ضرورت محسوس کریں تو عیادت کے نام پر کچھ پیسے بھی آپ بیمار کو دے سکتے ہیں۔ بچے اپنے دوستوں سے کیسے ملتے ہیں اور خوشی کا کیسے اظہار کرتے ہیں اس کا مشاہدہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر ہوا۔ دانیال بہت ہی دوستانہ رویے کا مالک ہے۔ اس نے پلے گروپ سے ہی دوست بنالیے تھے۔ کبھی کبھار وہ اپنے دوستوں کے گھر ملنے جاتا اور اس کے دوست بھی گھر آتے تھے۔گرمیوں کی چھٹیوں میں اس کا ایک بیسٹ فرینڈ گھر آیا۔ اس وقت غالبا دانیال چھ سال کا ہوگا۔ دونوں دوست ایک دوسرے کو دیکھ کر خوشی سے چیخیں مار کر اچھلتے جاتے پھر ایک دوسرے کو گلے لگاتے اور ہنستے جاتے۔ میں آج بھی یہ منظر سوچوں تو بے ساختہ ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ بچے چونکہ ہر قسم کے تکلف اور حجاب سے ماورا ہوتے ہیں اس لیے جو ان کے دل میں ہوتا ہے وہ کر گزرتے ہیں۔ اپنے بیسٹ فرینڈ کو دیکھ کر محبت اور خوشی کا اس سے بڑھ کر بے ساختہ اظہار اور کیا ہوسکتا ہے ۔ چیخیں ماریں ،گول گول گھومیں، ناچیں ایک دوسرے کو گلے لگا ئیں۔ کیا ہم بڑے اپنی خوشی کا اظہار اتنے بے ساختہ انداز میں کر سکتے ہیں ؟شاید کبھی بھی نہیں ۔اس لیے کہ بڑے ہوتے ہوتے ہم پر سنجیدگی اتنا غلبہ پا لیتی ہے کہ ہم اپنے جذبات کا بے ساختہ اظہار وہاں بھی نہیں کر تے جہاں ان جذبات کا اظہار کرکے ٹوٹتے رشتے بچائے جاسکتے ہیں ۔ اسی لیے بڑے ہونے تک ہمارے آپس کے رشتوں میں گفتگو کی خلیج حائل ہونے لگتی ہے ۔ گفتگو کے اظہار کی یہ خلیج خاموشی اور سنجیدگی سے بڑھتی رہتی ہے۔ جب ہم اپنے اندر کی بات کا اظہار نہیں کرتے تو پھر کہنے کو کچھ بھی نہیں رہ جاتا مگر خاموشی کو بھرنے کے لیے جو گفتگو ہم کرتے ہیں اس میں اصل بات ہی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ادھر ادھر کی گپیں لگانے کے باوجود اندر کا خالی پن بھرتا ہی نہیں : ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی قریبی رشتے میں اگر کوئی شکوہ آپ سے کرتا ہے تو اس کو آپ اپنی خوش قسمتی کی علامت سمجھیں کہ وہ اس تعلق کو اہمیت دے رہا ہے۔میاں بیوی کے تعلق میں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ اگر آپ کا شریک حیات کسی بات پر شکوہ کناں ہوتا ہے تو اس شکوے کو ہمدردی سے سنیں ناکہ اسے اپنی لیے ہتک سمجھیں۔ پروین شاکر کا ایک خوبصورت شعر مجھے یاد آتا ہے : مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا مسند دل پر اس نے کیا مجھ کو بحال کردیا کیونکہ رشتے بھی پودوں کی طرح ہوتے ہیں ان کو پانی دینا پڑتا ہے، ان کی کانٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہیں، ان کے اندر سے فالتو جڑی بوٹیوں کو اکھاڑنا پڑتا ہے۔رشتوں کے درمیان محبت کے اظہار کی حاجت ہمیشہ رہتی ہے ۔ امجد اسلام امجد کی نظم لی لائنیں ہیں: محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے،کہ جتنی بھی پرانی ہو اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے بات ملاقات کے آداب سے شروع کی تھی لیکن بات چلتے چلتے خیال کی کسی اور گلی کی طرف مڑ گئی۔ مگر بات کا اصل جوہر وہی ہے کہ اپنے دلی جذبات کا اظہار کرنا۔ہم عملی زندگیوں میں مصروف ہونے کے بعد جب خود والدین بن جاتے ہیں تو اپنے بوڑھے والدین سے محبت کا وہ اظہار نہیں کر پاتے جو ہم بچپنے میں اپنے والدین سے کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ابو جان جب گھر آتے تو ہم بہن بھائی دوڑتے ہوئے بے ساختہ ان سے لپٹ جاتے۔سردیوں کی شاموں میں چھوٹے بھائی ابو جان کی گرم چادر کے اندر چھپ کر چھپن چھپائی کھیلتے تھے۔ پھر سب بڑے ہوگئے اور اس بڑے ہونے نے والدین کے ساتھ بے ساختہ اظہار کا سلیقہ چھین لیا۔محبت میں لمس کا تعلق بہت اہم ہے۔ آج کل کے والدین اپنے بچوں کے ساتھ محبت کا خوب اظہار کرتے ہیں۔ انہیں گلے لگاتے ہیں لیکن محبت کا یہ لمس بوڑھے والدین کو بھی چاہیے۔جب بھی آپ اپنے والدین کے پاس بیٹھیں ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیں ،ان کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں پر لگائیں ، پاؤں دبائیں ، پاوں کی مالش کردیں۔ ان سے محبت کے لمس کا رشتہ پھر سے بحال کریں۔یہ بھی والدین سے ملاقات کے آداب میں شامل ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ رشتوں اور تعلق کے باغیچے دلی جذبات کے اظہار اور آپس کی گفتگو کے پانیوں سے ہی ہرے بھرے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار ہلکے پھلکے گلے شکووں کو بھی دل سے سن لیا کریں کہ یہ بھی رشتوں اور تعلق کا مان ہوتے : تم کو گر مجھ سے گلہ تھا کوئی بات کرنے میں قباحت کیا تھی