بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا؟بدنام تو اور بھی نامور ہیں‘ بدناموں کے نام پر بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اچھے بھلے لوگ تھے‘ بہادر جنگ جو جنگ کے ہنگامہ ذرا سی وفاداری بدل کر دشمن کی صف میں جا ملے، بس وہ دن اور آج کا دن ان کے نام غداری اور بے وفائی میں ضرب المثل ہو گئے، ایسا ہی ایک بروٹس بھی تھا، جس نے ’’سیزر‘‘ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ دم توڑتے سیزر نے پیچھے مڑ کے دیکھا ۔حیرت سے اس نے پوچھا :بروٹس تم بھی؟ اسی پر سب سے بڑھ کر بھروسہ تھا۔صدیاں بیتیں آج تک بروٹس دنیا بھر کے ادب میں غداری ‘ بے وفائی، دوستوں کی پیٹھ پر وار کرنے کا استعارہ بن گیا، بڑے بڑے نیک نام ناموری میں ایسے بدناموں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔بروٹس کو وہ ناموری ملی ہے کہ خود سیزر بے چارے کو پچھتاوا ہو رہا ہے کہ مڑکے اس کا نام کیوں لیا؟ اک ہمارے ہاں بھی سیزر ہے ۔نام اور ناموری میں بھلے اس کو شیکسپیئر نہیں ملا، پھر بھی نیک نامی اور ناموری میں اس سے کم نہیں، کتنے ہی بروٹس روزانہ اس کی پیٹھ پیچھے وار کر کے تھک رہے لیکن اس نے پیچھے مڑ کردیکھا نہ کسی کا نام لیا۔ اس کے بروٹس ایسی کڑی سزا کی امید ہرگز نہیں رکھتے تھے۔ نیک نامی میں ناموری ملے نہ ملے بدنامی میں جلدی مل جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ ضرب المثل بن سکتی ہے۔ بروٹس میر جعفر اور میر صادق کی طرح کسی نے اپنے ٹیپو سے شکوہ بھی کیا کہ آپ مجھے میر جعفر اور میر صادق کہہ کر پکارتے ہیں؟مگر کیوں؟ ٹیپو نے کہا کون جانے میں کس کو میر جعفر و صادق کہتا ہوں؟ میں نے کبھی آپ کا نام نہیں لیا، اس نے دل میں سوچا تو ہو گا کہ کیا آپ مجھے اتنا احمق سمجھتے ہیں جو یہ بھی جان نہ سکوں ؟ ٹیپو‘ سراج الدولہ‘ سیزر بھی اچھے اشارے ہیں۔ پابندیوں سے بچ نکلنے اور غیر آئینی قوانین اور احکامات کی گرفت سے بچ نکلنے کے لئے۔ بس ایک نام ،اس کی تصویر ،اس کی تقریر اور بیان پر بات نہیں ہو سکتی ۔ نام لیا جائے نہ تبصرے تجزیے میں کوئی ذکر ہو۔ اس کی سیاسی تحریک کے ہمدردوں اور ترجمانوں کو بھی کسی پروگرام میں مدعو نہیں کیاجائے گا، جس شخصیت کے ہزار پہلو ہیں اور رنگ ہر پہلو کا اور بقول حضرت علامہ اقبال: ہیں ہزاروں پہلو اس کے رنگ ہر پہلو کا اور سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں مشکل یہ ہے کہ وہ ہیرے کی طرح ہزاروں پہلو رکھتا ہے۔ رنگ ہر پہلو کا مختلف، ایک سے بڑھ کے ایک۔ کوئی بحث کوئی مباحثہ کوئی خبرنامہ کوئی تجزیہ اس کے بغیر ادھورا ہی نہیں ناقابل التفات ہے۔ جہاں اس کا نام نہیں پروگرام کی’’ریٹنگ70فیصد تک گر جاتی ہے‘ جو کہا خوب کہا: ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر سیاست ہو، مقبولیت ہو، معیشت حکومت ہو ،اپوزیشن امور خارجہ ہو یا امن و امان‘ تعلیم ہو یا صحت، ابھرے گا یہ اتنا ہی جتنا کہ دبائو گے۔ جس نے اس کو چھوڑا گویا اس سے زمانہ روٹھ گیا ،اس سے کنارہ کشی کر کے کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے۔ ان کی کوئی خیر خبر تک کسی نے نہ پوچھی اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے جنہوں نے اس کے نام پر یوٹیوب چینل چلائے، انہوں نے ہزاروں کی تنخواہیں گنوا کے اسی کے نام پر کروڑوں کمائے۔ حکومت مراعات سے نواز سکتی ہے ؟ لیکن ان کی طرف لوگوں کے دل نہیں پھیر سکتی، جب لوگوں کی توجہ ہٹی تو حکومت کے لئے دو کوڑی کے نہ رہے تب حکومت ان کے ناز نخرے کیوں اٹھائے ۔چنانچہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ مقامی چینل نظرانداز کرنے لگے تو بین الاقوامی نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔سوشل میڈیا نے سر پر بٹھایا: ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا رقیب بنے تو کسی نے منہ تک نہیں لگایا‘ الٹا راز دانی سے بھی گئے۔ادھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ضیاء الحق مارشل لاء کے ابتدائی زمانے میں اخبارات پر بڑا ہی سخت سنسر شپ نافذ تھا ۔کوئی خبر ‘ تبصرہ ‘ مضمون ‘اداریہ ،اشتہار مارشل لاء حکام کی منظوری کے بغیر شائع نہیں ہو سکتا تھا ۔اس دور میں اخبارات کا ہی چلن تھا۔ ایک سرکاری ٹی وی اور ریڈیو سٹیشن ویسے بھی زیادہ تر گھروں میں ٹی وی ہوتے ہی نہیں تھے۔ خبروں کا انحصار اخبارات پر تھا اور اخبارات کڑے سنسر کی زد میں۔ چنانچہ اخبارات خبریں ،اداریے ‘ مضامین اشتہارات ‘ کارٹون تیار کر کے کاپی پر چسپاں کرتے اور کاپی مارشل لاء حکام کے سامنے رکھ دی جاتی‘ میجر ‘ کرنل جو صاحب بھی ڈیوٹی پر ہوتے وہ قابل اعتراض خبریں وغیرہ کاپی سے اکھاڑ دیتے ان کی قابل اعتراض اور ناپسندیدہ خبریںہی دراصل قارئین کے لئے پسندیدہ ہوتی تھیں، چنانچہ اخبارات نے کاپی سے ہٹائی جانیوالی خبروں کی جگہ نئی خبر یا مضمون شامل کرنے کی بجائے ان جگہوں کو خالی چھوڑنا شروع کر دیا۔ اداریے‘ مضمون اشتہار یا خبر کی خالی جگہ زیادہ جاذب نظر اور تنقیدی خبر بن جاتی۔ اخبارات پڑھنے والے خالی جگہ کے اندر سے مارشل لاء مخالف لیڈروں کو طنزیہ مسکراتے ہوئے محسوس کرتے‘ خالی جگہیں شائع شدہ سے زیادہ توجہ اور تبصروں کا موضوع بن گئیں۔ اثر الٹا ہوا ،پابندی کسی کام نہ آئی‘ خیالی تصویریں‘ تقریریں اور تبصرے رنگ دکھانے لگے اب کیا ہو گا؟ وہی جو ’’سنسر شپ‘‘ کے ساتھ ہوا تھا‘ لوگوں نے ٹیلی ویژن سے ہاتھ اٹھا لیا‘ سب کی سکرینیں بند پڑی ہیں۔ سکرین بند تو ناظریں کہاں؟ 70فیصد تک اس کے ناظرین میں کمی آ چکی ہے ۔لوگ سوشل میڈیا دیکھنے لگے ہیں‘ اپنی پسند کے تبصرے‘ خبریں ‘ ٹک ٹاک‘ یوٹیوب ‘ وٹس ایپ پر دستیاب ہیں‘ جس کی تقریر ‘ تصویر ‘ تبصروں پر پابندی ہے اس کے برسوں پرانے خیالات ‘ بیانات ‘ ہسپتال کی مہم‘ یونیورسٹی کے تذکرے‘ دیومالائی کھلاڑی کا کردار نمایاں سے نمایاں تر‘ سارا دن نوجوان خواتین و حضرات کا یہی مشغلہ بن گیا ہے: ان کے کوچے سے اکشام گزرا تھا میں پھر یہی روز کا مشغلہ بن گیا وزیر اعظم کے بھاشن‘ وزیر داخلہ کی دھمکیاں‘ وزیر اطلاعات کے کوسنے‘ مریم نواز کے طعنے کس قدر مضحکہ خیز ہو جائیں گے جب نام پر پابندی کی وجہ سے ان کے بولے گئے ہر فقرے میں تین تین دفعہ بیپر لگے‘ جملے نامکمل اور مضحکہ خیز بن جائیں گے‘ لوگ ان کی بوکھلاہٹ کا ٹھٹھہ اڑائیں گے۔ نام پر پابندی ہو تو راہیں نکل ہی آتی ہیں‘ آج سے نصف صدی پہلے تک سکھوں کی بیویاں اور ہندو راجپوت خواتین اپنے شوہر کا نام نہیں لیتی تھیں۔ ان دنوں مردم شماری کے دوران گھر کے افراد کے کوائف لکھنے کے لیے ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ خاتون خانہ گھر میں اکیلی تھی۔ اس نے نیم کھلے دروازے سے جھانک کے پوچھا کون ہے؟ پوچھا آپ کا نام؟ کہا چندن کور ‘ پوچھا شوہر کا نام؟ وہ گھر کے اندر گئی اور پلیٹ میں ایک پیاز رکھ کر اس نے دکھایا اور پیاز کی طرف اشارہ کر کے بولی سنگھ میاں کا نام ’’گنڈا سنگھ‘‘ تھا، لکھنے والے نے پیاز دیکھا اور سنگھ سنا تو نام پیاز سنگھ لکھ دیا، نصف صدی کے بعد بھی اب تک گنڈا سنگھ کو پیاز کہہ کر چھیڑا جاتا ہے۔ مریم نواز’ مریم اورنگز یب‘ شہباز شریف‘ رانا ثناء اللہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے بیٹ لئے گھوما کریں گے یا ہسپتال کا ماڈل بنوائیں گے؟