بیس سالوں بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن کی ملاقات ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حالات ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی طرف جا رہے ہیں۔درد کی اس گھڑی میں اچھی خبر یہ ہے کہ قوم ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر یکسو ہو رہی ہے اور ان کے دل بھی پگھل رہے ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ہیوسٹن کی جیل میں اپنی مظلوم بہن سے تین ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کی ملاقاتوں میں ان کے درمیان ایک شیشہ حائل رہا۔ دونوں بہنوں نے بیس برس کے طویل وقفے کے بعد ایک دوسرے کو شیشے کے آر پار سے دیکھا۔وہ اپنی بہن کو گلے سے نہیں لگا سکیں اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکیں۔ اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو اپنی پوروں میں جذب نہیں کر سکیں۔ ڈاکٹر فوزیہ کا حوصلہ ہے اور وہی جانتی ہیں کہ دہائیوں کے بعد ہونے والی یہ ملاقاتیں کرب کے کون سے صحرا کو پار کرنے کے مترادف تھا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جیل میںعافیہ صدیقی سے ملاقاتوں کا احوال مختلف فورم پر بتارہی ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ان کے الفا ظ کم اور ان کی آنسو، آہیں اور درد میں لپٹی دبی ہوئی چیخیں ہم تک پہنچی ہیں ۔ ہے داستاں دراز بھی اور دلگداز بھی لیکن کہاں یہ دل کہ دیا جائے اس کو طول اہل دل ،ڈاکٹر فوزیہ سے یہ احوال سن کر ان کے ساتھ ساتھ روئے ہیں اور بے بسی کے کانٹوں اپنی روح میں پیوست محسوس کیا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بتاتی ہیں کہ عافیہ کا وجود اس پہ ہونے والے ظلم کی گواہی دیتا ہے ۔چہرہ ایک طرف سے جلا ہوا ،سامنے کے دانت ٹوٹے ہوئے ۔نحیف و نزار عافیہ اپنی بہن کو دیکھ کر پوچھتی ہیں آپ تو دبلی ہو گئی ہیں۔حیرت ہے ڈاکٹر عافیہ صدیقی دو دہائیوں سے ظلم کی چکی تلے پس رہی ہیں ۔بیس برس کی قید تنہائی اور جیل کا جبر برداشت کرنے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی ذہنی طور پر ٹھیک ہیں اور انہوں نے نہ صرف اپنی بہن کو پہچانا بلکہ ایک نارمل سا تبصرہ کیا جو ہم آپ بھی عام ملاقاتوں میں ایک دوسرے کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ سچ ہے کہ اللہ کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔یقینا عافیہ صدیقی کا حوصلہ اللہ تعالی نے ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند رکھا ہے، اسی لیے وہ اپنی زندگی میں اتنے غیر معمولی تکلیف اور ظلم اور جبر سے گزری اور پھر بھی ذہنی طور پر قائم ہیں۔ پھر انہوں نے اس ملاقات میں پاکستان کی سیاست کے حوالے سے بھی کچھ دلچسپی لی اور کچھ سوال کیے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تین بچوں کی ماں ہیں۔ جب جب ان کے ساتھ یہ سانحہ ہوا تو ان کا سب سے چھوٹا بیٹا شیرخوار تھا جو ان سے چھین لیا گیا تھا۔ باقی دونوں بچے پر اسرار طور پر ان کے گھر پہنچا دیے گئے لیکن سب سے چھوٹا بچہ واپس نہیں مل سکا ۔خاندان نے یہی سوچ کر صبر کرلیا کی وہ بچہ شہید ہوچکا ہو۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بہن سے ملاقات میں سب سے پہلے اپنے چھوٹے بچے کے بارے میں پوچھا کہ سلیمان کا کیا حال ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اس کے باقی دونوں بچوں کے بارے میں بتانا شروع کردیا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ عافیہ کو اصل حقیقت بتا کر پہلے سے ستم رسیدہ ماں کو اور دکھی کروں۔وہ کہتی ہیں میں نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اس کے دوسرے بچوں کے بارے میں بتایا , بیٹی مریم کے بارے میں بتایا کہ دیکھو مریم کیسے تم سے پیار کرتی تھی، کیسے گلے لگاتی تھی۔ان کے دونوں بڑے بچے میڈیکل پروفیشن میںہیں . دونوں نے اپنی ماں کے لئے ٹائم لائن کے ساتھ اپنی تصاویر کا کولاج بنا کر بھیجا تھا۔لیکن جیل انتظامیہ نے وہ تصاویر تک ڈاکٹر فوزیہ کو اندر نہیں لے جانے دیں ۔ ظلم سا ظلم ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ سب بیان کرتے ہوئے زاروقطار رو رہی تھیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنی بہن سے پاکستان کے حوالے سے سوال کرتی رہی اور سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں۔اور اس سوال پر تو میں کانپ کے رہ گئی جب ڈاکٹر عافیہ نے پوچھا کہ کیا پاکستان اور مسلمانوں کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں؟آہ۔۔بیس برس سے سے غیر مسلموں کی قید میں ایک مسلمان تعلیم یافتہ خاتون کا یہ استفسار کی عمومی طور مسلم دنیا او پر خصوصاً پاکستانیوں کی غیرت حمیت پر ایک طمانچہ ہے۔ کمزور معاشی حالات پر قدم قدم کئے گئے سمجھوتوں میں ڈاکٹر فاسٹس کی طرح اپنی روح گروی رکھنے کی شرمناک داستان کا بیان ہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ جب اپنی بہن سے تیسری دفعہ ملنے کے بعد واپس آنے لگیں تو ظلم گزیدہ عافیہ نے پوچھا آپ مجھے کب واپس لے کے جائیں گی؟ ’’پھر کہا مجھے اس جہنم سے نکالو۔۔"ظلم گزیدہ عافیہ کا یہ سوال دراصل اپنی بہن سے نہیں بلکہ پاکستان کے بے حس اہل اختیار واہل اقتدار سے ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں ہمارے اہل اقتدار ہر دور میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے رہے۔اس ایشو پر ابہام دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد کا ڈاکٹر عافیہ کے لیے عملی طور پر جرأت مندانہ اور دردمندانہ انداز میں ساتھ دینا نہایت قابل ستائش ہے۔ وہ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ ہر فورم پر اٹھارہے ہیں ۔کارزویل جیل میں عافیہ سے ایک ملاقات میں سینیٹر مشتاق احمد بھی موجود رہے۔ یہ ملاقات تین گھنٹے پر محیط تھی۔ ان ملاقاتوں میں جو بنیادی چیز سامنے آئی ہے اس کا اظہار ڈاکٹر فوزیہ اور سنیٹر مشتاق دونوں نے ان الفاظ میں کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو قید خانے سے باہر نکالنے کی چابی واشنگٹن نہیں بلکہ اسلام آباد کے پاس ہے۔ اگر گیند اسلام آباد والوں کی کورٹ میں ہے تو پھر ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یادرکھیں یہ وہ ذمہ داری ہے جس کا جواب انہیں روز قیامت دینا پڑے ہوگا۔