دینی مدارس ہماری مُسلمہ علمی روایت کی آبرو ہیں ، ان کا آ ٹھ سالہ درسِ نظامی کا سلیبس اپنی جامعیت کے اعتبار سے وقیع اور معتبر ہے ۔ مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر ایک مربوط نظام کے تحت دینی تعلیم کی ترویج میں سرگرم ِ عمل ہیں ۔ جس کے لیے، ان کے تشکیل شدہ امتحانی بورڈ ، گورنمنٹ سے باقاعدہ منظورہ شدہ اور ایک موثر نیٹ ورک کے حامل ہیں ۔ مختلف مسالک کے وفاق/تنظیم کے یہ ا دارے اپنا مستقل تنظیمی ڈھانچہ اور اپنے درسیات کے نصاب کو جدیدعصری ضروریات سے ہم آہنگ رکھنے کیلیے ’’بورڈ آف سٹڈیز‘‘کے بھی حامل ہیں،جہاں ماہرین تعلیم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برأ ہونے کے لیے ہمہ وقت مستعد ہیں ۔ بعض نمائندہ دینی مدارس بہترین کمپیوٹر لیب ،آئی ٹی کی جدید سہولیات اور لینگوئجز کے بہترین شعبوں سے بھی آراستہ ہیں ۔ ہمارے ملک میں دینی تعلیم و تدریس کا اہتمام زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہے،تاہم اس میں ریاست اور گورنمنٹ بھی اپنے مختلف پروگرامز کے ذریعے ان کی معاونت میں سرگرم ِعمل ہے۔ایسے ہی ایک پروگرام کا آغاز پنجاب حکومت کی طرف سے عمل میں آیا،جسکے مطابق دینی مدارس کے طلبہ کو انگلش لینگوئج کورس، کمپیوٹر ایپلیکیشنز، ہوم اپلائنسز اور دیگر کورسز کی بہم رسانی کا اہتمام، ان کے تعلیمی ادارے میں کیا گیا ہے ۔ یہ کورس چھ ماہ پہ محیط ہوگا اور اس کے لیے پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف سے باقاعدہ ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پائیلٹ پراجیکٹ کا آغاز داتاؒ دربار میں قائم، معروف دینی درسگاہ جامعہ ہجویریہ سے ہوا۔ ازاں بعد اس کو جنوبی پنجاب تک وسعت دی جائے گی اور راو لپنڈی میں اس سہولت کی بہم رسانی کا بھی اہتمام ہوگا۔ میرے خیال میں طلباء ---جنہوں نے مستقبل میں دعوت و تبلیغ اور وعظ و ارشاد کا منصب سنبھالنا ہے ، ان کے لیے انگلش لینگوئج کورس از حد مفید ہوگا۔ اس وقت دنیا میں ایسے دینی سکالرز جو بین الاقوامی سطح پر اس اہم دینی فریضے کو بحسن و خوبی سر انجام دے سکیں ، اس کی اشد ضرورت ہے ۔ گزشتہ دنوں کینیڈا سے وہاں کی مسلم کمیونٹی کے لیڈر امام سید بدیع الدین پاکستان کے دورے پر تشریف لائے ،ان کی داتاؒ دربار میں جامعہ ہجویریہ کے سٹوڈنٹس کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا بھی اہتمام ہوا۔ جس میں انہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ عصری تحدیات اور جدید چیلنجز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس وقت یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں ایسے جواں سال دینی سکالرز کی ضرورت ہے، جو انگریزی زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر دسترس رکھتے ہوں ۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ باہر کی دنیا میں، اب وہ بزرگ آہستہ آہستہ معدوم ہوتے جارہے ہیں جو اُردو اور پنجابی میں بات کرنا اور سننا پسند کرتے تھے ۔ ہمارے دینی سکالرز کو اب ایسی نوجوان نسل سے واسطہ ہے، جس کی اُٹھان وہاں کے ماحول کی ہے اور وہ اُردو نہ بولتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں اور اس کے مسائل محض فرقہ وارانہ بھی نہیں ،بلکہ آج ادیانِ عالم اور با لخصوص مسلم کمیونٹی کو الحاد اور اس جیسی دیگر تحریکات کا سامنا ہے،جس کے آگے بندباندھنا از حد ضروری ہے ۔ لہٰذا جدیدعلوم سے آگاہی ، دل نشین اسلوب بیان اور ماڈرن لینگوئجزمیں مہارت اور شناوری کے بغیر تبلیغ ِدین کا فریضہ سر انجام دینا ممکن نہ ہے ۔ بنابریں اس موقع کو غنیمت جانا گیا اور پنجاب گورنمنٹ نے بھی اس ضمن میں اپنے دائرے کو وسعت دی اور کالجز اور سکولز میں جاری سمر کیمپس کے ساتھ دینی مدارس کو بھی اس میں شامل کیا۔اس ضمن میں محکمہ انڈسٹریز اور ان کے سیکرٹری احسان بھٹہ کا بڑا کلیدی کردار ہے ،جو فنی معاونت کے ساتھ ا ساتذہ کی فراہمی اور کمپیوٹر لیپ کی آراستگی اور اس کی بہم رسانی کا اہتمام کریں گے ۔ بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی ہے کہ شاید ہمارے دینی ادارے جدید تقاضوں سے اِعراض و انحراف کی روش پر گامزن ہیں۔ حالانکہ علوم کی تحصیل اور تعلیم سے شغف"By Default" یعنی موروثی اور جبلی طور پر ان صاحبانِ دعوت وارشاد کی سرشت میں ہے ۔ مدارس اور ہماری دینی روایت ، صائب اور مثبت عصری رجحانات سے ہمیشہ ہم آہنگ رہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارا دین علم پرور اور فکر آفریں ہے ۔آنحضرت ﷺ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ تشریف فرما ہوئے تو یہاں کی دینی و سیاسی زمام اور اقتدار یہود کے پاس تھا، جواں سال صحابی حضرت زید بن ثابت ؓ کو نبی اکرم ﷺنے عبرانی زبان سیکھنے کی تعلیم دی ، تاکہ یہود،’’عبرانی‘‘جنکی قومی اور دینی زبان تھی،ان سے معاملات اور دیگر امور کی ترتیب و تصویب میں د قّت نہ ہو،سات ہجری کو جب شاہانِ عالم اور فرمانروایانِ دنیا کے نام آپﷺکے ایلچی اور قاصد ،نامہ ہائے مبارک لے کر روانہ ہوئے تھے تو وہ جہاں جہاں، جس خطّے، ایمپائر اور سلطنت میں جار ہے تھے وہ ان کی زبان اور روایت سے مکمل آگاہی کے حامل تھے،گویارومن ایمپائر کی طرف جانے والے سفیر، رومن زبان اور پرشیا یعنی فارس کی طر ف آنے والے فارسی زبان و بیان پر دسترس رکھتے تھے۔از خود ہمارے خطّے میں جہاں عظیم تر سماجی انقلاب بر پا ہوا، ہندوئوں کی آما جگاہ ہندوستان، اسلام کی عظیم تعلیمات کا مرکز اور مسلم سلطنت کا عہد آفریں حوالہ بن گیا ، یہاں تشریف فرما ہونے والے صوفیاء نے خود کو یہاں کی روایت،کلچر،تہذیب اور زبان سے شناسا اور شناور کیا،تاکہ تبلیغ ِ دین کی فرضیت کا حق ادا ہوسکے۔بصور ت ِدیگر لب و لہجہ،حال حلیہ اور رنگ و نسل کا بُعدکبھی بھی اتنی قربت نہ پیدا کرنے دیتا کہ جس سے ایسی فریکوئنسی جنم لے کہ دل کی بات دل میں اُتر جائے ۔ پھر ان صوفیاء کی خانقاہیں بین الا قوامی تعلقات اور بین المذاہب مکالمے کا ایسامرکز بنیں کہ دنیا بھر سے ان کے روابط قائم ہوئے اور ہر مذہب کے وفود ان کے ہاں حاضر ہوتے ۔ حضرت بہا ء الدین زکریاؒ ملتانی کی بھائیہ یونیورسٹی اپنے عہد کی عظیم دانشگاہ اور بین الاقوامی نوعیت کا علمی مرکز تھا، جہاں بطور خاص ایک شعبہ فنون کی تحصیل کے حوالے سے مختص تھا ، جہاں زبان دانی ، تیراندازی ، گھوڑسواری ، نیزہ بازی اور تیراکی سمیت دیگر مہارتیں سیکھنے کو میسر تھیں ۔ اس خطّے میں دینی درسیات میں سپیشلائزیشن کا اوّلین تصوّر بلکہ عملی مظہرحضرت بہا ء الدین زکریاؒ ملتانی کی سہروردی خانقاہ نے دنیا کو عطا کیا ۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد بہاء الدین زکریاؒ ملتانی،اپنی یونیورسٹی کے طلبہ کا از خود انٹرویوکرتے،انکے رجحانات کا جائزہ لیتے ہیں ۔اسکی تشویق اور میلان کو ملاحظہ کرتے اور بعد از جائزہ دیکھتے کہ یہ تحقیق کے میدان کا شہسوار بنے گا یا تقریر کے ۔ تدریس میں جائے گا یا تبلیغ میں اور اس تخصص کے بعد وہ سندِ فراغ پاتا اور جب ملتان کی دانشگاہ سے روانہ ہوتا، آپؒ اسے پانچ ہزار دینار دے کر رخصت کرتے اور فرماتے لوکل کمیونٹی پر اپنی کفالت کابوجھ نہ ڈالنا،اس سرمایہ سے تجارت کرنا، اور ایک اچھے تاجر کے طور پر سوسائٹی میں اپنے آپ کو معتبر کرنے کے بعد،لوگوں پر دین کی تعلیمات کو پیش کرنا ۔ جب تمہاراکریکٹر صدق و امانت کے اوصاف سے متصف ہوگا تو لوگوں پر تمہاری بات فوری اثر کرے گی اور اگر تمہارے کردار میںجھول ہوگا تو پھر تمہاری تبلیغ بھی اثر آفریں نہیں ہوسکے گی ۔ آپؒ کی خانقاہ سے علماء اور ماہرین کے جو قافلے اور کاررواں نکلے،انہوں نے مشرق بعید تک کے علاقوں کو مسخر کیا اور چائنہ،جاوا،سماٹرا ، ملائیشیا اور انڈویشیا تک دین ِاسلام کی روشنی کا اہتمام کیا ۔