حدیث پاک ہے کہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کی شفاء اتاری ہے یعنی ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ ایلوپیتھک میڈیسن میں کچھ بیماریوں کا علاج صرف یہ ہے کہ دوائیں تما م عمر کھاتے رہیں۔مثلاََ اگر آپ کو ذیا بطیس ہو جاتی ہے تو آکو صبح شام۔گولیاں پھانکنی پڑیں گی پھر پندرہ سالوں کے بعد ان دواؤں کے مضر اثرات سے آپ کے گردے ناکارہ ہو جائیں گے یا آپ کا جگر کام کرنا چھوڑ دے گا یا پھر آپ کو دل کا اٹیک ہو جائے گا۔ ایک عزیزہ ہیں جن کی ایک بیماری کا علاج ہو رہا تھا ،جس کی دوا کھانے سے یہ ہوا کہ بیٹھے بیٹھے ان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا اور ساتھ انہیں شدید چکر آتے۔ جب انہوں نے سپشلسٹ سے پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے آرام سے کہا کہ علاج کے لیے جو دوا آپ کھا رہی ہیں یہ اس کے "سائیڈ ایفیکٹ" ہیں۔دوا کی ڈبی میں پڑے بروشر کو پڑھا تو اس پر لکھا تھا کہ یہ دوا دل پر اثر کرتی ہے اور اس کی ہارٹ بیٹ کو غیرمتوازن کرتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہارٹ بیٹ کا غیر متوازن ہونا اور چکر آنا تو بذات خود ایک بیماری ہے۔ایلو پیتھک کے علاوہ ہومیوپیتھک یا جڑی بوٹیوں سے علاج بھی ہمارے ہاں مستعمل ہے۔ جڑی بوٹیوں سے علاج میں بھی ایک طرف یونانی حکمت ہے تو دوسری طرف طب نبوی ﷺہے۔طب نبوی کے حوالے سے ہمارے ہاں لوگ زیادہ تر طب نبوی کا ذکر ہو تو لوگ کلونجی کے بارے میں جانتے ہیں کہ کلونجی موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہے ۔اسی طرح سنا مکی کے بارے میں ارشاد ہے کہ اگر موت کا کوئی علاج ہوتا تو سنا مکی سے ہوتا۔میتھی دانہ کے بارے میں فرمایا کہ اگر میری امت کو میتھی دانہ کی افادیت کا پتہ چل جائے تو وہ اسے سونے کے بھاؤ خریدیں۔اس ارشاد نبوی کی روشنی میں ہم میتھی دانے کی افادیت کا ادراک کر ہی نہیں سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ میتھی دانہ بازار میں بہت سستے داموںدستیاب ہے اور شاید رہے گا۔ میں نے ڈاکٹر ناظر حسین جو طب نبوی کے ماہر تھے،ان سے میتھی دانہ کہ افادیت کے بارے سنا تو اسے اپنی زندگی میں شامل کرلیا۔ویسٹ میں بھی اس پر بہت تحقیق ہوئی ہے۔ انٹر نیٹ پر موجود کچھ ریسرچ پیپرز میں نے پڑھے تو حیران رہ گئی کہ بظاہر سستی سے چیز میں ہماری صحت کی حفاظت کا پورا انتظام موجود ہے۔کووڈ نے جہاں ہمیں بہت سارے دکھوں سے اور مسائل سے دوچار کیا تھا وہاں ایک اچھی چیز یہ ہوئی کہ لوگ آلٹرنیٹو میڈیسن کی طرف بھی سوچنے لگے۔انہی دنوں میں پہلی دفعہ لوگوں کو غذا سے علاج کی افادیت سمجھ میں آئی۔اس پر بات ہونے لگی کہ غذا کے ذریعے ہم اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط رکھ سکتے ہیں۔کووڈ ہی کے دوران میرا ڈاکٹر عاصمہ گوندل سے رابطہ ہوا۔ ان سے میرا یہ رابطہ ایک سوشل میڈیا گروپ میں ہو،ا جہاں پر انہوں نے کسی خاتون کو بیماری کے حوالے سے جو مشورے دیئے اس سے میں بڑی متاثر ہوئی۔ میں نے ان سے رابطہ کیا تو ان کی قابلیت کا اندازہ ہوا۔میں بہت کم لوگوں سے اس طرح متاثر ہوئی جس طرح ڈاکٹر عاصمہ گوندل سے ملے بغیر ان کے قابلیت اور اپنے سبجیکٹ پر ان کے عبور سے متاثر ہوئی ہوں۔ وہ نا صرف کوالیفائد فارماسسٹ ہیں بلکہ خود ایک فارماسوٹیکل انڈسٹری کی اونر ہیں۔ سائنسی بنیادوں پر طب نبوی پر ریسرچ ان کا اصل میدان ہے ۔ بقول ان کے prophetic medicine میرا پیشن ہے۔ وہ ایسے مریضوں کا کامیابی سے علاج کرتی ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا کوئی کلینک نہیں ۔وہ علاج کے پیسے نہیں لیتیں لیکن دنیا بھر سے مریض ان سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان سے مشورہ لیتے ہیں، طب نبوی پر یقین رکھنے والے لوگ ان سے علاج کروانے آتے ہیں تو طب نبوی کے حیرت انگیز نتائج پر حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آغاز ہی سے انہیں طب نبوی میں بہت دلچسپی تھی ۔پڑھائی کے دوران ہی وہ جب بھی کسی خاص چیز کے حوالے سے شفاء کی حدیث پاک نظر سے گزرتی تو وہ چیز کے اجزا پر سائنسی انداز میں ریسرچ کرتیں۔بطور ایک فارماسٹیکل طالب علم کے چونکہ وہ دواؤں کی فارمولیشن اور ان کے اجزا پرتحقیق کرنا سیکھ رہی تھیں ، تو یہی علم انہوں نے طب نبوی کے حوالے سے اپلائی کرنا شروع کیا۔ طب نبوی کی جڑی بوٹیوں میں موجود کمپونینٹس پر ریسرچ کی اور ان کا بیماری پر اثرات کا جائزہ لیا اور پھر اس دوائی کی اپنی فارمولیشن بنائیں، انہیں مختلف مریضوں پر اپلائی کیا جس سے انہیں حیرت انگیز نتائج ملنا شروع ہوئے۔ ڈاکٹر عاصمہ گوندل نے پورے یقین کے ساتھ طب نبوی میں مذکور جڑی بوٹیوں کا استعمال کرکے سنگین بیماریوں میں مبتلا مریضوں پر آزمایا اور شفایابی کے نتائج نے انہیں حیران کردیا۔لیور سورائسز،کڈنی فیلئر، مختلف طرح کے فورتھ سٹیج کینسر کے مریضوں کا علاج کیا اور بیماری کو ریورس کیا۔ڈاکٹر عاصمہ کہتی ہیں کہ انہوں نے طب نبوی کی صرف چند دواؤں کے مختلف امتزاج اور غذا کے ساتھ کینسر کی آخری سٹیج پر نا امیدی میں مبتلا مریضوں کا کامیابی سے علاج کیا۔کیموتھراپی انسان کے جسم پر بہت برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ایک طرف مریض کا جسم کینسر جیسی بیماری سے لڑتا ہے تو دوسری طرف کیمو کے مضر اثرات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ جس سے لڑتے لڑتے مریض کا مدافعتی نظام تھکنے لگتا ہے ۔ ایسے مریضوں کا علاج بھی ڈاکٹر عاصمہ نے طب نبوی سے کیا۔ یہ واقعہ ان کے زمانہ طالبعلمی کا ہے کہ ان انکی ایک قریبی عزیزہ سرجری کے بعد زیر علاج تھیں اور ان کے زخم نہیں بھرتے تھے۔ غلطی نا جانے کہاں ہوئی لیکن زخم بھرنے میں تاخیر ہونے لگی۔ اینٹی بائیوٹک کی ڈریس پر ڈریس لگتی رہیں مگر زخم بھرنے کی بجائے بگڑنے لگا۔ڈاکٹر عاصمہ نے طب نبوی سے مدد لے کر ایک لیپ تیار کیا اور زخم پر لگادیا۔ دو دفعہ کے لگانے سے زخم حیرت انگیز طور پر خشک ہونے لگا۔مریضہ جن سپیشلسٹ ڈاکٹرز کے زیر علاج تھی وہ بھی طب نبوی کا یہ معجزہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ (جاری ہے )