دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں پائیدار اور مستقل امن کے قیام کی غرض سے قائم ہونے والے عالمی نظام میں اقوامِ متحدہ کا ادارہ قائم کیا گیا ۔اس ادارے کو تقریباً اِبتداء سے ہی جن اہم مسائل کو حل کرنے کا چیلنج رہا ان میں عرب اِسرائیل کا تنازع شامل ہے جس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور خطے میں پائیدار امن کا قیام ایک خواببن کر رہ گیا ہے جس کا ممکن ہونا فی الحال مشکل نظر آتا ہے۔ عرب اسرائیل تنازع، جس کا محور فلسطین کا ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر قیام ہے، کی وجہ سے عرب ممالک اور اِسرائیل کے درمیان 1967 اور 1973 کی جنگوں سمیت تین بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ اَلبتہ جس جنگ نے عرب دنیا اور اِسرائیل کے مابین تعلقات کے مستقبل کے خدوخال پر گہرے اثرات ڈالے وہ اکتوبر 1973 میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ ہے جس میں ایک طرف اِسرائیل اور دوسری طرف مصر اور شام تھے۔ آج پچاس سال بعد، یہ واضح ہے کہ اِس جنگ نے نہ صرف خطے اور عرب اسرائیل تعلقات کو بدلا، بلکہ عالمی اتحاد کی ہیئت کو بھی بدل دیا ۔حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکہ کے نکتہ نظر کو بھی تبدیل کردیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عرب دنیا اِس جنگ کے بعد پھر نہیں سنبھل سکی اور اِسرائیل کے خلاف عرب ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کا فوجی اِتحاد دوبارہ تشکیل نہیں پاسکا۔ یہ جنگ جو 19 دن تک جاری رہی، "اکتوبر کی جنگ ، یوم کپور جنگ، رمضان جنگ ، یا 1973 کی عرب اسرائیل جنگ" جیسے متعدد ناموں سے جانی جاتی ہے۔ اکتوبر کی چھ تاریخ کو اِس جنگ کا آغاز اس وقت ہوا جب مصر اور شام نے 1967 میں اِسرائیل کے ہاتھوں کھونے والے اپنے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اسرائیل پر دو محاذ سے حملہ کیا۔ یاد رہے کہ 1967 میں چھ دن کے دورانیے پر مشتمل عرب اِسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ اِس کے علاوہ اسرائیل نے مغربی کنارے ، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی سمیت فلسطین کے کئی علاقوں کو بھی قبضے میں لے لیا تھا۔ اکتوبر 1973 کی جنگ کے اِبتدا میں اِسرائیل کو بہت نقصان اٹھانا پڑا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جنگ کا پلڑا عربوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن 24 گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں اِسرائیل نے دو بکتر بند ڈویژنوں کو متحرک کرتے ہوئے جلد ہی شامی پیش قدمی کو پسپائی میں بدل دیا اور شام کے اندر گھستے ہوئے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اِس کے ردِعمل میں، عراقی، سعودی اور اردنی فوجوں کے یونٹس جوابی حملے کا سامنا کرنے کے لیے شام کے محاذ پر لڑائی میں شامل ہوئے مگر اِسرائیل اہم کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوا حتیٰ کہ دمشق سے 35 کلومیٹر کے اندر تک پیش قدمی کرتے ہوئے نئے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اِس طرح شروع میں عربوں کی فتح نظر آتی یہ جنگ آخر میں عربوں کی پسپائی میں تبدیل ہوگئی۔ عربوں اور فلسطینیوں کی اِس شکست کو "نکسا" کے نام سے جانا جاتا ہے، 17 اکتوبر1973 کو عرب ممالک کی سربراہی میں پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک (اوپیک) کی تنظیم نے واشنگٹن پر جنگ میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کا الزام لگانے کے بعد اَمریکہ پر تیل کی پابندی عائد کردی۔جس کا مقصد فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کے لئے اَمریکہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے تیل کی پابندی کا استعمال کرنا تھا۔ عرب ممالک نے اس وقت تک اِس پابندی کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا جب تک کہ 1967 میں اسرائیل کے زیر قبضہ تمام علاقوں کو واپس نہیں لیا جاتا اور فلسطینیوں کے حقوق بحال نہیں ہوجاتے۔ تاہم پابندی کے اِس اقدام کی بدولت تیل کی قیمتوں میں دنیا بھر میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے اَمریکہ نے جنگ کے لئے اَپنی حمایت کا اَز سرِ نو جائزہ لیا۔ تیل کا بحران دنیا بھر کی معیشتوں کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا، جس کی وجہ سے جنوری 1974 میں پابندی سے قبل تیل کی قیمت تقریباً 2.90 ڈالر فی بیرل سے چار گنا بڑھ کر تقریباً 11.65 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ تاہم عرب ممالک کی طرف سے اَمریکہ پر عائد کی گئی تیل کی پابندی 1974 میں ختم کردی گئی۔ اقوام متحدہ نے 22 اکتوبر کو قرارداد 338 منظور کی جس میں فریقین کو فوری جنگ بندی اور اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا جو اس وقت نہیں ہوا۔ تاہم 25 اکتوبر کو جنگ بندی ہوئی جس سے جنگ باضابطہ طور پر ختم ہوگئی۔ اَمریکہ نے اِسرائیل، شام اور مصر کے درمیان جنگ بندی کے معاہدوں کو یقینی بنانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کیں اور فریقین کو ایسے معاہدوں تک پہنچنے کے لیے لاکھوں ڈالر کی پیشکش کی۔ اس وقت کے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر،امن معاہدے کی ثالثی کی کوشش میں ایک ملک سے دوسرے ملک گئے، جسے 'شٹل ڈپلومیسی' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک نئی اِصطلاح تھی جو بین الاقوامی سیاست کی ڈکشنری میں شامل ہوئی۔ اَمریکی صدر کی کیمپ ڈیوڈ میں واقع خصوصی رہائش گاہ میں ہونے والے یہ خفیہ مذاکرات 13 دنوں پر محیط تھے جس کا نتیجہ بہرحال اِسرائیل اور مصر کے مابین "کیمپ ڈیوڈ معاہدہ" کے نام سے جانے والے مشہور معاہدہ کی صورت میں نکلا۔اَگرچہ مصر اور اِسرائیل نے 1979 میں ایک اَمن معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن کئی وجوہات کی بناء پر اِس فریم ورک پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکا جبکہ دونوں فریق اِیک دوسرے پر الزام لگاتے رہے۔ اَلبتہ یہ معاہدہ فلسطینی پناہ گزینوں اور یروشلم کی حیثیت جیسے کلیدی مسئلہ کے موضوع پر مبہم تھا۔ فلسطین اور اِسرائیل کے مابین 1993 میں ہونے والے اوسلو امن معاہدے کے بعد اردن نے بھی 1994 میں اِسرائیل کے ساتھ اَمن معاہدے پر دستخط کیے۔ اَلبتہ متحدہ عرب امارات سمیت متعدد ممالک نے 2020 میں اَمریکی صدر ٹرمپ کے متعارف کردہ نام نہاد ابراہیم معاہدے کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ مصر پر فلسطین کے اِیشو کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، لیکن اب 50 سال گزرنے کے بعد بہت سے عرب ممالک فلسطین کے مسئلے کو نظرانداز کرتے ہوئے اِسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ اکتوبر 1973 کی جنگ کے پینتالیس سال بعد بھی اِسرائیل فلسطینی علاقوں اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قابض ہے حتیٰ کی عربوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والی مختلف جنگوں کے نتیجے میں فلسطین کے علاقوں سے زبردستی نکالے گئے فلسطینی مہاجرین کو واپس ان کے آبائی علاقوں میں آباد ہونے اور شہری حقوق فراہم کرنے سے بھی مسلسل اِنکاری ہے۔