آج 9 دسمبر ہے دنیا میں اینٹی کرپشن کا دن منایا جارہا ہے۔لغت میں کرپشن کا مطلب بدعنوانی ہے ۔پبلک آفس کے اختیار کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ،اپنے اختیارات میں تجاوز کرنا بددیانتی کرنا . اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو ان کے جائز حق سے محروم کرتے جانا اور عدل اور انصاف کو روندتے چلے جانا یہی کرپشن ہے۔گذشتہ 70 برس سے اگر اس ملک میں کچھ پوری توجہ اور تسلسل سے ہوا ہے تو وہ کرپشن ہے ،حکومتوں کی بدترین کارکردگی دراصل کرپشن کی حکمرانی کی کہانی ہے۔ یہاں کے اہل اختیار اور اہل اقتدار کے رگ و ریشے میں کرپشن اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ زلزلہ متاثرین ہو یا سیلاب متاثرین ان مصیبت زدگان کے لیے آنے والی امداد کے پیسے بھی ان تک پوری دیانت اور ذمہ داری سے نہیں پہنچ پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایدھی ،اخوت اور الخدمت پر بھروسہ کرتے ہیں مگر سرکار اور اس کے اداروں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ سندھ میں آج بھی سیلاب زدگان موسم سرما میں گرم کپڑوں کے بغیر ٹھٹھر رہے ہیں۔پاکستان کے 75 سال تو کرپشن کی ہزار داستانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔پاکستان سے لے کر عالمی سطح کی سیاست تک کرپشن ہر منظر نامے میں کسی نہ کسی صورت نظر آتی ہے۔اسی کرپشن کے اثرات ہیں کہ ہمیں دنیا میں دولت مند اور غریب میں خوفناک تضاد دکھائی دیتا ہے۔آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ،رہنے کو مناسب مکان نہیں، تعلیم اور صحت کی سہولیات دستیاب نہیں۔کرپشن ایسا عفریت ہے جس کے سینے میں دل نہیں اس کی آنکھ میں ہمہ وقت خون اترا رہتا ہے جب تک یہ دوسروں کا حق غصب نہ کرلے اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ موساک فونسیکا پاناما کی ایک لا فرم ہے۔ اس کے پوری دنیا میں 40 کے قریب دفاتر ہیں۔ یہ فرم دنیا کی چوتھی بڑی قانونی فرم ہے اور اس کی وجہ شہرت بڑی بڑی شخصیات کے اثاثے چھپانے اور ٹیکس چوری میں مدد دینا۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں کرپشن کرنا اور کرپٹ کاموں کو قانونی تحفظ دینا بھی ایک اہم کام بن چکا ہے۔ کرپشن ایک ایسا الف لیلوی شہر ہے جس کی ہر گلی سے ہزار رستے نکلتے ہیں اور ہر رستہ ہزار ہا مکانوں کی طرف جاتا ہے اور ہر مکان میں ہزار ہا طرح کے کمرے ہیں اور ہر کمرے میں ہزار طرح کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں اور ان سب کہانیوں میں دو طرح کے ہی کردار ہیں ایک وہ جو کرپشن کو اپنا ایمان سمجھے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کرپشن کے ظلم گزیدہ ہیں۔اشفاق صاحب نے محبت کے حوالوں سے ایک محبت سو افسانے لکھے تھے۔ یہ بھلے وقتوں کی بات ہے جب محبت بھی ایک موضوع ہوا کرتا تھا وہ آج زندہ ہوتے تو ایک کرپشن اور ہزار ہا غضب ڈھاتی ہوئی کہانیاں لکھتے۔کرپشن وہ ناسور ہے جو صورت بدل بدل کے انسانی معاشرے پر وار کرتی ہے اور انسانی معاشرے کو آدھ مواد کرتی ہے۔ کرپشن کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھوکے کی پلیٹ سے نوالہ چھین رہے ہیں آپ بیمار کے ہاتھ سے اس کی دوا چھین رہے ہیں۔ آپ بچوں سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین رہے ہیں آپ انسانوں سے بہتر زندگی کا حق چھین رہے ہیں۔ کرپشن کی کارستانیاں ہیں کہ عدالتوں سے عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا۔یہ کرپشن کا وار ہے کہ ایک شریف آدمی اپنے جائز کام کے لیے سرکاری دفتروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ شریف آدمی کو خوار کر کے یہ نظام اسے سکھاتا ہے کہ یا تو ساری عمر اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہو یا اپنی جیب سے پیسے نکالو اپنی فائل کو پہیے لگاؤ۔پاکستان کے نظام میں کرپشن اس طرح سے رچ بس گئی ہے کہ اب کہیں کہیں سرکاری دفتروں میں کرپشن کو بھی لیگلائز کردیا گیا ہے یعنی قانون کی آڑ میں جائز کرپشن کرنا مثلاً اگر آپ پاسپورٹ آفس جاتے ہیں تو اپنے پاس دو آپشن ہیں یا تو آپ قطار اور انتظار کے امتحان سے گزریں یا پھر پیسے دے کر اپنا کام پہلے کروا لیں۔کرپشن کی چھتری اتنی بڑی ہے کہ اس کے نیچے ہر قسم کے معاشرتی سیاسی سماجی اور اخلاقی جرائم کے قافلے پناہ لیتے ہیں۔ کرپشن صرف مالی نقصان ہی نہیں پہنچاتی بلکہ روحانی طور پر بھی انسان کو انسانیت سے عاری کردیتی ہے۔ تباہ کن کرپشن وہ ہے جس میں اخلاقیات اور اقدار کا پورا نظام ہی کرپٹ ہو جائے تو پھر آپ کے لیے کسی بھی اچھے برے رستے پر چلنا آسان ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے ساتھ یہی واردات ہوئی کہ لوگ اب کرپشن کو برا نہیں سمجھتے۔ جہاں کرپشن ہوگی وہاں کریمنل گروپ آرگنائز ہو جاتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے ادارے جوکرپٹ کنڈیکٹ کو روکنے پر مامور ہوتے ہیں وہ بھی اس آرگنائزڈ کرپشن کا حصہ بن جاتے ہیں ایسے معاشرے میں جرم بڑھتا ہے مگر مجرم کو سزا نہیں ملتی۔کیونکہ مجرم ، قانون نافذ کرنے والے ادارے انصاف دینے والی عدالت یہ تمام کے تمام ایک آرگنائزڈ کریمنل گروپ کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر ایسے معاشروں میں انصاف محض ایک کھوکھلا لفظ بن کے رہ جاتا ہے لوگ اس پر تقریریں کر سکتے ہیں کالم لکھ سکتے ہیں، اینٹی کرپشن ک نعرے لگ سکتے ہیں مگر حقیقت میں انصاف ہوتا کبھی دکھائی نہیں دیتا اور یہی حال بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کا ہوچکا ہے۔ ہم اور ہمارا ملک کرپشن زدہ معاشرے کی حقیقی تصویر ہیں۔جہاں قانون اور سرکار کے ادارے اہل اختیار کو ہر قسم کا تحفظ دیتے ہیں۔جہاں ایوانوں میں قوانین ہی ایسے بنائے جاتے ہیں کہ وائٹ کالر کرپشن کے راستے کھلے رہیں۔اور کرپشن کے ہائی پروفائل کبھی بھی قانون کے دائرے میں نہ آ سکیں۔اسی لیے یہا ہر قسم کے اہل اختیار کے اثاثے انڈے بچے دیتے رہتے ہیں ان کے کاروبار پھلتے پھولتے دنیا ملک کی سرحدیں پار کرکے بیرونی ملکوں تک پہنچ جاتے ہیںجبکہ غریب کی چنگیر میں پڑی روٹی سکڑتی رہتی ہے۔اور زندگی کے بازار میں سفید پوش اپنی خالی جیب کے ساتھ اپنے وجود پر شرمندہ ہوتا رہتا ہے۔ایسے معاشرے میں اینٹی کرپشن کا دن منانا کسی مذاق سے کم نہیں۔