راگ پرانا وہی پرانی راگنی، کارواں "استحکام پاکستان" میں شامل تمام "انقلابیوں" کے نام اور چہرے کسی سے ڈھکے چھپے نہیںالبتہ یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ اکثر وہ "بااصول" احباب بھی شامل ہیں جو "تاریخ ساز" اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد کو لوٹے کے نام سے پکارتے تھے، کتنا غلط کرتے تھے!!! بہرحال ن لیگ نے بھی استحکام پاکستان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے، آخر کیوں نہ کیا جاتا۔ مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت جو ٹھہری لیکن کیا ن لیگ وہ مسلم لیگ ہے؟ سر زمین پاکستان کے سینے میں کئی راز ہیں، یہ دھرتی ماں روز غریب و بے آسرا عوام کا دکھ درد دیکھتی ہے۔ عام آدمی محرومی کو مقدر مان چکا ہے۔ کیا یہ روش اس کا جرم ہے؟ یا اس روش پر مجبور کرنے والے حکمران مجرم ہیں؟ کس سے فیصلہ کروائیں ؟ معاشرے کا مجموعی تاثر ہے کہ طاقتور اور بااثر طبقہ کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا۔ عام آدمی کا اگر پالا اشرافیہ سے پڑ جائے تواس کے لئے انصاف کا حصول ممکن ہی نہیں۔ اس تلخ حقیقت کی تصدیق کئی زاویوں سے ہو جاتی ہے۔ معاشرہ تہہ در تہہ تقسیم اور مظلومیت کی پرتوں میں الجھا ہوا ہے۔ عام آدمی کا گمان مضبوط تر ہو چکا ہے کہ وہ تمام تر محنت کے باوجود ترقی کی شاہراہ کا مسافر نہیں بن سکتا۔ ایسی صورتحال کا جب کسی معاشرے کو سامنا ہو تو کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ افرادی قوت آبادی کے تناسب کے اعتبار سے ترقی کے زینے طے سکتی ہے۔ پاکستان 75 سال سے اس طرح کے نامساعد حالات کا شکار ہے، ہماری اشرافیہ اور با اثرطبقات کی خواہشات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین سے لے کر سکندر مرزا کے دور تک ہونے والی محلاتی سازشوں نے وطن عزیز میں جمہوریت کے ننھے منے پودے کو مسل ڈالا۔ معاشرتی قدریں اور احساسات روند ڈالے گئے۔ رہی سہی کسر ایوب خان نے اقتدار میں آ کر نکال دی۔ بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو متنازعہ بنانے کی تگ و دو میں معاشرے کے تشخص کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا اور عام آدمی کو احساس دلایا گیا کہ اس عظیم مملکت خداداد جس کے لئے اس نے، اس کے اہل خانہ نے لازوال قربانیاں دیں، اس کا اس ملک پر کوئی حق نہیں۔ وہ معمولات مملکت کو اپنی خواہش اور سوچ کے مطابق چلانے کی خواہش بھی کرے تو اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ۔ ووٹ کی پرچی پر اس کا استحقاق نہیں، اس کے ہاتھ میں اگر کچھ ہے تو قیمے والی ٹکی اور نان، اگر چوں چاں کی تو خالی ہاتھ رہے گا۔ آخر کار نتیجہ 1971ء کے سانحہ کی صورت میں سامنے آیا۔ یحییٰ خان پر عذاب کا سارا ملبہ ڈال دیا گیا، ایوب خان، بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن کو سانحہ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار کردار ٹھرانے کا نعرہ سیاسی فیشن بن گیا۔ بلاشبہ یہ تینوں کئی لحاظ سے ذمہ دار ہیں لیکن گیارہ سال تک اسملک سے جو کیا جاتا رہا، اس کا حساب کوں لگائے گا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد کوڑے کھانے والوں کی تو کوئی کمی نہیں تھی لیکن ان کا اصل جرم بیان کرنے والا کون تھا؟ قیمے والی ٹکی اور نان ہاتھوں میں نہ تھامنا ان کا جرم تھا۔ بھٹو مرحوم کے طرز سیاست سے اختلاف ہر کسی کا اسی طرح حق تھا، جیسے ہر سیاسی جماعت سے اختلاف کا حق جمہوریت کے تحت ہر کسی کو ہے مگر جو کیا گیا، تاریخ کا سینہ داغ دار ہے۔ 1985ء کے غیر جماعتیں انتخابات ایک جماعت پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کی غرض سے تھے اور ملک پر وڈیروں کے ساتھ نو دولتیوں اور سرمایہ داروں کو سیاست پر قابضہ کروا دیا گیا۔ دختر مشرق مخترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنا ان کی سیاسی غلطی تھی۔بات عام آدمی اور اس کی محرومی کی ہو رہی تھی، استحکام پاکستان کے اعلان کے بعد آنے والے انقلاب کے پیش خیمہ کی بابت لکھنا مقصود ہے۔ جہانگیر ترین اگر وزیراعظم بن جائیںتو عمران خان کی ساتھ ان کے گزارے دنوں میں ان کو اے ٹی ایم اور خان کا ہیلی کاپٹر کہنے والوں کے ساتھ ان کا اتحاد انھیں کیسا محسوس ہوگا؟ پھر سوچا عام آدمی کو کیا حاصل ہوگا؟ شرمندہ سا ہونے لگا: جب آصف علی زرداری کا بیان سنا کہ پنجاب کے صنعتکار اکٹھے ہو جائیں، ہم انھیں کاروبار کے مواقعے دیںگے۔ ویسے بات بری نہیں مگر واضح ہوگیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ آج کی پیپلز پارٹی کی روح میں نہیں۔ کل جہاں بھٹو کھڑے تھے، آج وہاں عمران خان کھڑے ہیں، کل جہاں پی این اے کھڑی تھی، آج وہاں پی ڈی ایم کھڑی ہے۔ تاریخ کا دھارا سب کے سامنے ہے لیکن عام آدمی کو کیا ملا؟ وہ جہاں کل تھا، آج بھی وہیں ہے، اسے کل بھی معمولات مملکت میں اپنا حصہ چاہیے تھا اور آج بھی۔ آج صورت حال کیا ہے؟ قیمے والی ٹکی اور نان! وگرنہ تو کون تو میں کون۔ حقوق کا فقدان ایسا کہ احساس بھی مار دیا گیا۔ فقط دو وقت کی روٹی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی جدو جہد میں افرادی قوت کا ضیاع ہوتا چلا جا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بیوروکریسی کے ہاتھوں میں طاقت تھی تو عوام کو محروم اور محکوم رکھنے کی پالیسی رہی۔ ملک غلام محمد اور سکندر مرزا کا وطیرہ کتابوں کی صورت میں تاریخ کے سینے میں موجود ہے، اس کے بعد کا مختصر احوال لکھ دیا گیا۔ 1985ء کے بعد کی محرومی آج کے آئینے میں صاف دکھائی دیتی ہے۔ اہل اقتدار پی ڈی ایم کی شکل میں متحد ہو کر مکمل طور پر عیاں ہوچکے، جسے شبہ تھا، دور ہو چکا۔ آئندہ استحکام پاکستان نے جو ہمالیہ سر کرنے ہیں، اس کا فسانہ خلق خدا کی زبان سے سنا جا سکتا ہے۔ عام آدمی فاقوں سے بلک رہا ہے اسے محض استحکام پاکستان کا نعرہ سنا دیا گیا، ان تلوں میں تیل کہاں؟ ہوتا تو ہماری یہ حالت نہ ہوتی لیکن کیا کہیں وزیر خزانہ فرماتے ہیں: شہباز شریف کو تاریخ یاد رکھے گی، انھوں نے پاکستانی معیشت کو بچایا، عوام قیمے والی ٹکی اور نان پر صبر کرے!!!