بجٹ 2022-23ء اور معاشی پس منظر 9جون کو وفاقی حکومت 14500 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے . رواں مالی سال کے اقتصادی سروے کے مطابق حکومت کو کسی بھی معاشی شعبے میں طے شدہ اہداف حاصل نہیں ہو ئے ہیں. معاشی ترقی کی شرح افزائش محض 0.29 فیصد بتائی گئی ہے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کے مارچ 2021 میں خاتمے کے بعد موجودہ حکومت کے تیار کردہ اقتصادی سروے میں معاشی ترقی کی شرح 6.1 فیصد پروجیکٹ کی گئی تھی. اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 58 ہزار 247 ارب ہوگیا ہے. معیشت کا حجم 400 ارب ڈالرز سے سکڑ کر 341 ارب ڈالر پر آگیا ہے ۔فی کس آمدنی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جو اب 1568 ڈالر فی کس ہے ۔ پچھلی حکومت نے بجٹ خسارہ 4.4 فیصد چھوڑ ا تھا جو اب حکومت کے خیال میں 7.7 فیصد ہو جائے گا اور آئی ایم ایف کے مطابق اس سال بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.8 فیصد ہوگا یعنی 6300 ارب سے بڑھ کر 9500 ارب تک چلا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے اپنی اکڑ فوں سے پہلے مفتاح اسماعیل کی محنت سے بحال پیکیج کو معطل کرایا۔ اب وہ اور وزیر اعظم کسی پلان بی کی بات کر کے پتہ نہیں معیشت اور عوام کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ تمام ماہرین معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہو گا تو پاکستان میں مہنگائی کی شرح 70 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر معیشت عاطف میاں کا کہنا ہے کہ موجودہ بدترین معاشی صورتحال کے ذمہ دار حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی CPI انڈیکس پر شرح 38 فیصد اور SPI پر ایک سال میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ ایک سال میں روپیہ 20 فیصد سے زیادہ گراوٹ کا شکار ہوا ہے۔ اس طرح مہنگائی اور کرنسی کے استحقار کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید 60 فیصد کم ہو گئی ہے ۔آئی ایم ایف سے معاہدے کے متعلق غیر یقینی پن اور سیاسی انتشار کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاری تو دور کی بات ملکی کاروباری افراد نے بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔کاروباری طبقے کا موجودہ حکومت پر اعتماد ختم ہو چکا ہے ۔عاطف میاں کے مطابق ملک کی معاشی بقا کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سیاسی مکا لمے کا آغاز کر ے ۔یہی بات آصف علی زرداری نے بھی کی ہے کہ کم از کم 50 سال کی طویل المدت معاشی منصوبہ بندی کی جائے اور جو بھی حکومت برسر اقتدار ہو وہ اس پر عمل کر ے مگر مسلم لیگ ن کا وتیرہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیاست میں کبھی عدلیہ، کبھی اسٹیبلشمنٹ تو کبھی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ محاذ آرائی کی حالت میں رہتی ہے۔ معیشت کو مستقل بنیادوں پر مضبوط کرنے کی بجائے کک بیکس والے مہنگے پراجیکٹس شروع کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ مثلاً اورنج ٹرین کا منصوبہ عوامی بہبود کی بہت زیادہ قیمت ہے۔ پاکستان کو 2023 سے جون 2026 تک 77.5 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو اس کی معیشت کے سائز کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں۔ عالمی فنانسنگ ریٹنگ کے ادارے فچ کے مطابق پاکستان کو اس ماہ 3 ارب 70 کروڑ کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ پاکستان گزشتہ چھ ماہ سے 6.5 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی اور چین سے 4.2 ارب ڈالرز کے قرض کو رول اوور کرانے کی تگ ودو میں لگا ہوا ہے مگر ابھی تک اسے کامیابی نہیں ملی ہے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل دباؤ کا شکار ہیں جو کم ہو کر 4.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیںاور محض تین ہفتوں کے درآمدی بل کی ادائیگیاں کے لیے ہیں ۔تحریک انصاف کی حکومت کے ختم ہونے پر زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 16.2 ارب ڈالر تھا۔ فچ کے مطابق اس وقت پاکستان ڈیفالٹ اور قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کے درمیان رسک کی صورت حال سے دوچار ہے۔ ماہر معیشت حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے آپریشنل ہونے کے بعد ہی دوست ممالک فنڈ نگ دیں گے ۔موجودہ بجٹ عوام کی مشکلات میں کو ئی کمی نہیں لا سکتا ۔ اس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ آئی ایم ایف سے ڈیل کرنے اور بہتر معاشی پالیسیوں کے لیے لائی تھی مگر اب اس کی ناکامی کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ رواں سال حکومت نے سٹیٹ بنک سے 2940 ارب قرض لیا جو 182 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے اور افراط زر کو بڑھانے میں خسارے کی اس سرمایہ کاری کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے ٹیکسوں کا ہدف 9200 ارب روپے رکھا ہے جبکہ سود اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے 7300 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور 1800 ارب کے دفاعی اخراجات کے لئے رکھے گئے ہیں اور اگر حکومت کو 2500 ارب نان ٹیکس سورسز بھی حاصل ہوں اور 3500 ارب روپے صوبوں کو دینے کے بعد وفاقی حکومت کو مالی معاملات کے لیے قرض کی مئے پر ہی گزارا کرنا ہے۔ بیرونی قرضوں کے شدید دباؤ کے پیش نظر امریکی تھنک ٹینک USIP نے پاکستان کو تجویز دی ہے کہ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے برآمدات کو بڑھانے، بیرونی سرمایہ کاری، درآمدات میں کمی اور ترسیلات زر کو بڑھانے کے لیے مربوط، طویل المدت حکمت عملی پر کام کر نا ہو گا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں کوئی پلان بی کام نہیں کرے گا ۔اگر موجودہ آئی ایم ایف کا پروگرام نا مکمل رہتا ہے تو ہمیں 30 جون کے فوراً بعد آئی ایم ایف کے پاس نئے پروگرام کے لیے جانا ہو گا۔ بجائے اس کے کہ وزیر خزانہ ان کو عورتوں کی طرح طعنہ دیں کہ پاکستان میں معاشی بے یقینی کی وجہ آئی ایم ایف کی ڈرامہ بازی ہے۔ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو‘‘ اگر ہمیں آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ملا یا ہم قرضوں کی ری سٹرکچر نگ نہ کروا سکے تو ڈیفالٹ ہمارا مقدر ہے جس کے منفی اثرات سری لنکا سے زیادہ مضر ہونگے کیونکہ ہم نیوکلیئر ملک ہیں اور دوسرا ہماری آبادی سری لنکا سے کئی گنا زیادہ ہے۔ تیسرا ہمارے بالائی طبقات اور حکمران کسی صورت میں بھی اپنے اللے تللے کم کرنے پر راضی نہیں ہیں ۔