میں سوچ رہا ہوں۔76ویں یوم آزادی پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ناامیدی کے سائے چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔جن لوگوں نے ہماری قیادت کی اور آنے والے دنوں میں جن کے کندھوں پر یہ ذمہ داریاں آئیں گی۔ان کا نہ کوئی ویژن ہے۔ نہ ان کے پاس کوئی پلان ہے نہ انہوں نے پولیٹیکل کلچر اور کریکٹر میں کوئی قابل تقلید مثالیں قائم کی ہیں، سب آزما لئے گئے۔ہمارے سیاسی نظام کا یہ دیوالیہ پن ہے کہ نہ جانے ہر دور میں غیر جمہوری بیساکھیوں کے بغیر اپنے اندر اتنی توانائی پیدا نہ کر سکا کہ اپنی جرات فراست اور دانائی سے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر سکے۔اس کی سب سے نمایاں مثال یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ہم ہر بار دیکھتے ہیں ہماری داستان کے اسکرپٹ ایک ہی جیسا ہوتا ہے بس صرف کردار بدل جاتے ہیں، اسی کہانی کے گرد یہ کردار ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔پھر جہاں سے چلتے ہیں، گھوم کر وہیں آن کھڑے ہوتے ہیں۔عام آدمی یہ نہیں دیکھتا کہ جمہوریت کی تعریف کیا ہے بلکہ وہ تو یہ دیکھے گا کہ جمہوری نظام کے وہ ثمرات کیا ہیں جن سے وہ فیض یاب ہوا۔پھر وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ جس جمہوری نظام اور آزاد معاشرے کا خواب اسے دکھایا گیا تھا اس کی اساس کیا ہے کیا اس کے لئے یہ نظام ایسا ہے کہ ووٹ دینے والے بے خبر اور بے بس ہونگے اور ووٹ لینے والے اپنے مفادات کے شاطرانہ کھیل سے عام پاکستانی کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔آج اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ گرفتاری کے بعد عمران خان کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ موضوع زیادہ زیر بحث نہیں کہ عمران خان سے کیا گناہ سرزد ہوا۔انہوں نے کیا جرم کیا جس کی سزا انہیں ملی، موضوع گفتگو جج جناب ہمایوں دلاور کا کنڈکٹ ہے جنہوں نے واقعی بہت عجلت میں فیصلہ سنایا۔یوں لگا جیسے انہوں نے ذہن بنایا ہوا تھا۔ممکن ہے اعلیٰ عدالتوں سے عمران کو ریلیف مل جائے وہ ضمانت پا کر جیل کی مضبوط حصار سے باہر نکل آئیں۔اس لئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ کہانی کا آغاز ہے۔اختتام نہیں، یہ بھی ایک پرانی کہانی سے جڑ کر اسی کا تسلسل ہے وہ کہانی بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔اس کہانی کے دو کردار سب سے نمایاں تھے۔عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے اپنے وقت میں یہ اس کہانی کے مرکزی کردار تھے۔دونوں نے اپنے اپنے کرداروں کو جس طرح بیان کیا اس میں کچھ سچ تھا اور کچھ جھوٹ لیکن ماضی قریب کی اس کہانی کا کھرا سچ یہ ہے کہ اس وقت ان کرداروں کی دوستی اور مخاصمت میں پاکستان کا نقصان ہوا۔میں بار بار کہتا ہوں کہ ہماری تاریخ کے سب ہی کرداروںکو تیز دوڑنے کی عادت رہی، اسی لئے ہماری تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہم نے کبھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔قائد اعظم کی ایمبولینس کے خراب ہونے سے لے کر نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت 1951ء سے 1958ء تک مختلف کرداروں کا متحرک رہنا، تخت نشینی اور معزولی‘ ایوب خان کا مارشل لاء حسین شہید سہروردی کی گرفتاری‘ مختلف سیاسی رہنمائوں پر ایبڈو کی پابندیاں ایوب خان کا زوال اور یحییٰ خان کا اقتدار پر قبضہ۔ 70ء کے الیکشن‘ الیکشن نتائج کو تسلیم نہ کرنا اور سقوط ڈھاکہ بھٹو کا دور‘ آئین کی تیاری 77ء کے انتخابات‘PNAکی تحریک ضیاء الحق کا مارشل لاء بھٹو کی پھانسی پیپلز پارٹی کے خلاف کریک ڈائون محمد خان جونیجو کی بحیثیت وزیر اعظم تعیناتی اور برطرفی 58-2Bکا استعمال بہاولپور طیارہ حادثہ‘ الیکشن 1988ء بے نظیر کا اقتدار میں آنا۔1990ء میں آئی جے آئی کی تشکیل اور نواز شریف کا وزیر اعظم بننا‘1993ء اور 1997ء کے انتخابات اور سیاسی پولرائزیشن کا عروج 1998ء میں ایٹمی دھماکے اور ملک کو مختلف پابندیوں کا سامنا‘1999ء میں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار میں آنا نواز شریف کی قید اور جدہ کا سفر بے نظیر کی جلاوطنی مشرف کا این آر او 2008ء میں پیپلز پارٹی کا برسر اقتدار آنا 2013ء میں نواز شریف کی انتخابی کامیابی۔عمران کا سیاسی سفر‘ نواز شریف کی نااہلی‘ پروجیکٹ عمران خان 2018ء میں اقتدار تک رسائی‘2022ء میں اقتدار سے علیحدگی شہباز شریف کا دور حکومت۔تاریخ کے اس پورے سفر میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار‘ اس دوران درجنوں نہیں سینکڑوں واقعات پیش آئے بقول پیر صاحب پگارا پاکستان کی پوری تاریخ اقتدار کی چھینا چھپٹی سے عبارت ہے۔ پاکستان نے 76سال کے اس سفر میں چند اہم کامیابیاں حاصل کیں۔لیکن اگر آپ بنظر غور دیکھیں تو ناکامیوں کی فہرست کامیابیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ایک بات ہر دور میں یکساں تھیں جو آیا اس نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو وہ کر سکتا تھا۔اس لئے من حیث القوم ہمارے ماتھے پر جو کچھ لکھا ہے وہ بہت حوصلہ افزا نہیں اس لئے آپ دیکھ لیں کسی نے کوئی قوم تعمیر نہیں کی کسی نے کوئی نیا نظام نہیں دیا انہوں نے کسی سسٹم کی اصلاح نہیں کی نہ انصاف دلایا۔ نہ تعلیم و صحت نہ عزت نہ طبقاتی تفریق ختم کی اور نہ معاشی عدل قائم کیا۔لہٰذا آپ دیکھ لیں تاریخ نے انہیں بھلا دیا۔اب جو لوگ ہماری رہنمائی کا دعویٰ کر رہے ہیں انہوں نے ہمیں کس حال میں پہنچا دیا ہے اگر آپ میں سے کسی کو اس قوم پر رحم آتا ہے تو خدارا اس قوم سے انصاف کر جائیں۔ 76برس سے اقتدار کے دروازے پر کھڑے اس ہجوم کو ایک قوم بنا دیں۔ میں سمجھتا ہوں سب آزمائے جا چکے ہیں۔نواز شریف عمران خان اور آصف علی زرداری میوزیکل چیئر کے اس خطرناک کھیل نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں ہم حیرت انگیز کرتی دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں اگر کسی کو ثبوت درکار ہیں تو وہ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ جس ملک سے سینکڑوں پروفیشنلز روزانہ کی بنیاد پر ملک سے مایوس ہو کر وطن عزیز چھوڑ کر جا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اب بہت ہو گیا پوری قوم گزشتہ چند سالوں میں خاص طور پر اس سیاسی ہلچل کی سزا بھگتت رہی ہے سب آزما لئے گئے۔صرف دعوے اور وعدے ہیں کسی نے کچھ نہیں دیا اس لئے سمجھ لیں کہ بس بہت ہو گیا اگر مضبوط اور طاقتور کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ آگے آئیں اس قوم کو راستہ دکھائیں۔عام آدمی کو مہنگائی کا توڑ چاہیے روزگار چاہیے۔ترقی چاہیے اپنے بچوں کے مستقبل کا تحفظ چاہیے خدا کے واسطے اب رک جائیں۔وقفہ لے کر کسی ایسے نظام پر کام کریں جو اس ملک کے لوگوں کے لئے ہو۔ کچھ اپنے ہموطنوں کا سوچیں!/سب آزما لئے گئے کچھ نیا کریں