میرے پسندیدہ میڈیا پنڈت کے مطابق، عوام کے مسائل اور ہیں اور امام کے مسائل اور۔ کتنے دانش ور ہیں جو سیاست کے ون ڈے میچ سے آگے سوچ رہے ہیں؟ کسی کو اعتراض نہیں کہ درسی کتب میں مطالعہ پاکستان اور تاریخ پاکستان کے نام پر کیسی اور کس طرح کی تاریخ سے نو جوان نسل کو تعلیم کا زیور پہنایا جا رہا ہے ۔ مطالعہ پاکستان ۔۔۔ محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے۔اس سے پہلے اس سر زمین پر کس کی حکومت تھی،کیسی تھی، اس کا کسی طالب علم کو ککھ پتا نہیں ہے۔ نہ جانے لوہے کے ہیلمٹ پہنے ہوئے وہ کون سے ماہر تعلیم تھے جنہوں نے تاریخ کی ایسی سرجری کر ڈالی کہ مت پوچھ۔اشرافیہ کے پاس ایسے کاموں کے کیلئے فرصت کہاں؟شاید اس کے لیے فکری انقلاب یا فکری جہاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے تو ہمیشہ سے میری نسل کے لیے 1977 سے درسی کتب کے ذریعے ذہنی یونیفارم سب کو پہنانے کا حکم ہوا۔آپ ایسی ہی ادھوری نسلیں پیدا کر رہے ہیں،جن کو نہ پاکستان کی تاریخ سے غرض ہے نہ ہی تاریخ اسلام سے۔اللہ بھلا کرے یونیورسٹیوں کی بوچھاڑ کا۔ہر بیروز گار ٹیچر بن گیا ہے ۔پتہ نہیں وہ ٹیچر تھا یا اس کا سوفٹ ویئر کسی اور پیشے کے لیے بنا تھا ۔جامعات کی بڑی بڑی عمارتیں، عبائیں ، گائون، دستار فضیلت ، اسٹیج، اسناد کی تقسیم ، پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہی ڈاکٹرز۔ فکری اچھوتا پن ، نیا پن، اوریجنل سوچ، تحقیقی ندرت، عنقا۔ کبھی طالب علم بھی نظریاتی ہوا کرتے تھے۔تعلیمی اداروں میں نعرے لگتے تھے۔ایشیاء سبز ہے ۔۔۔ ایشیاء سرخ ہے۔مگر آج کے کسی بھی تعلیم یافتہ ، کسی بھی ڈسپلن کے کسی بھی طالب علم کو پاکستان بھر میں مل لیں۔کنفیوژن، تاریخ اور دین کا علم تقریباََ زیرو۔کسی بھی فکری سمت سے بے نیاز اور موقع کی تلاش میں جھانکتا ملے گا ۔ نظریہ جائے بھاڑ میں ۔وطن ، سماج، سمت، اس کا مسئلہ نہیں ہے۔کامیابی ، اور وہ بھی کسی بھی قیمت پر ۔اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو آج کے پاکستانی نوجوان کو ٹریفک میں گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتا دیکھ لیں۔ پاکستان کے نا خدائوں میں سے کسی ایک نا خدا کو ایک میڈیا پنڈت نے کہا ـ"آپ پاکستان کیا بدلیں گے،ٹریفک کی لین ہی سیدھی کر کے دکھا دیں"۔ عالمی سرمایہ داروں کا نظام بڑا مکار ہے، بہت عیار ہے،استحصال کرتا ہے۔مگر شہر کے لوگ تو ہمیشہ ہی ظالم ہوتے ہیں، ہمیں مرنے کا شوق کیوں ہے؟پچھلی نسل نے نئی نسل کو اچھا پاکستان تو دیا نہیں۔اچھی تعلیم ،اچھی تاریخ، فکری سمت ، کوئی راستہ اور جہت بھی نہ دے سکے۔ ڈاکٹرز ۔۔پروفیسرز،انجینئرز، وکلاء اور بیورو کریسی۔۔۔ یہ سب کبھی طالب علم تھے۔مگرجب وہ عملی بازار اور منڈی میں آئے تو انہیں کیا نظر آیا؟ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈ اتھا تو کسی کے ہاتھ میں ڈنڈی۔اگر ان طالب علموں کو اچھے استاد اور درست فکری راستے ملے ہوتے تو کیا پاکستان ایسا ہوتا؟ کاش اساتذہ نے اچھی فصل کاشت کی ہوتی۔مگر استاد بیچارہ کیا کرے؟آپ نے پاکستان کے بڑے شہروں کی جامعات کی آراستہ عمارتیں ضرور دیکھی ہو ں گی۔کیا آپ کبھی کسی قصبے یا گائوں کے سکول یا کالج میں گئے ہیں؟ایک نِکاماسٹر ہوتا ہے جو سکول میں پڑھاتا ہے۔اس کی موٹر سائیکل ، بالوں کی کٹنگ، اور چال ڈھال سے آپ پہچان سکتے ہیں کہ یہ "نِکا ماسٹر "ہے ۔آئیے آپ کو" وڈا ماسٹر "دکھاتے ہیں۔ یہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ہیں۔ کالج میں پڑھانے کے لیے قریبی شہر سے مزدا ڈالے میں اڈے پر اتر کر ـ،چنگ چی رکشہ پر بیٹھ کر کالج جاتا ہے۔کلاسیں پڑھا کر یہ ماسٹر دوبارہ اسی مشقت سے گزر کر دن ڈھلے جب اپنے گھر پہنچتا ہے تو ؟ تو اسکی جسمانی اور نفسیاتی کیفیت کیا ہوگی؟ یقینا ڈنگ ٹپائو۔سوچتا ہے ،جیسے ممکن ہو اس منحوس چکر سے باہر نکلو۔وہ رشک سے دیکھتا ہے اس سرکاری افسر کو جو ماڈرن شہر میںAC دفتر میں بیٹھ کر اس کی قضائو قدر کے فیصلے کرتا ہے ۔کیسی تدریس ؟کونسی تعلیم ؟کہاں کا ویژن؟ سوائے پاکستان کے سبھی جانتے ہیں کہ آج کی جنگیں ہتھیاروں کی بجائے ٹیکنالوجی سے لڑی جا رہی ہیں۔آج کے محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد گھوڑوں پر سوار ہو کر نہیں ، لیپ ٹاپ پر بیٹھ کر جنگ لڑتے ہیں۔ معیشت ، ٹیکنالوجی کو آگے بڑھاتی ہے اور ٹیکنالوجی ملک کی اکانومی کو ۔انڈیا سے پاکستان تک ، بنگلہ دیش سے چین تک ، ٹیکنالوجی اور اکنامکس ہی ان کے ہتھیار ہیں۔ پاکستان الٹا سفر کر رہا ہے ۔ حکومت بھی ، سماج بھی اور ہم سب بھی ۔ہم اس منحوس چکرویو سے باہر ہی نہیں آنا چاہتے ۔ہم نحوست کے حصار میں ہیں۔اشرفیہ اور وہ سب جو بیچتے ہیں دوائے دل،اپنے حصے میں آئی کسی لگژری سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ان کا مسئلہ کیا ہے؟ تعلیم نظر تو آئے عمارت اور پڑھانے والوں کی شکل میں۔مگر کہیںعوام کو گہری نیند سے جگا نہ دے ۔ہم پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیمی ادارے بناتے ہیں۔ مگر ان میں فکری اجتہاد، تحقیق اور انحراف کے راستے بند کردیتے ہیں۔ ہم استادوں کے ذہنوں پر بڑے بڑے تالے ڈال دیتے ہیں جو وہ آگے نئی نسل کو منتقل کر دیتے ہیں۔ ہر یونیورسٹی میں ، پبلک ، پرائیویٹ میں سب کچھ ہوتا ہے۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوتا۔وہی سٹیج، وہی تقریر، وہی ڈگریاں۔۔۔ مکھی پر مکھی مارو۔فکری ندرت،تخلیقی سوچ اور نئی اپروچ حیرت سے ان کے چہرے تک رہے ہوتے ہیں۔ن م راشد کے مطابق ۔۔۔ آدمی سے ڈرتے ہو ۔زندگی سے ڈرتے ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں،زندگی تو تم بھی ہو۔اس سے تم نہیں ڈرتے۔اشرافیہ سے اتنا ہی کہنا ہے ۔۔ ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا ، تیرے جلووں کی بات ہوتی ہے۔۔۔ تو جو چاہے تو دن نکلتا ہے، تو جو چاہے تو رات ہوتی ہے۔ ٭٭٭٭٭