شہباز شریف کی حکومت کا وقت تمام ہوا ۔جاتے جاتے قومی اسمبلی کے فلور پر ہمارے منتخب نمائندوں نے دھواں دھار تقریریں کیں ۔اس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے چند دل کی باتیں بھی کہہ ڈالیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی گفتگو بھی قابل غور تھی ۔یہ سب ارکان چند ماہ بعد جب الیکشن میںاگر ہوئے تو پھر عوامی جلسوں میں یہی وعدے اور دعوے کرتے نظر آئیں گے کہ پاکستان کے عوام نے اگر ان پر اعتماد کیا تو وہ اس قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔لیکن یقین مانیں ایسے سب وعدے وہ پہلے بھی اپنی انتخابی تقریروں میں کرتے رہے ہیں لیکن یہ وعدے نہ پہلے ایفا ہوئے نہ اس بار ہونگے ۔ اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ایک سابق وزیر اعظم خود یہ اقرارو اعتراف کر رہا ہے کہ گزشتہ 5سال میں اسمبلی نے کوئی ایک ایسی قانون سازی نہیں کی جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ثمر عوام تک پہنچا ہو۔شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اسمبلی کے ایئر کنڈیشنڈ ہال میں اور آرام دہ نشستوں پر جھولتے ہوئے ارکان کا طرز زندگی کا موازنہ ان گوشواروں سے کیوں نہیں کیا جاتا جو وہ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے مجھے نہیں خبر وہ کون سی آفت وہ کون سا عذاب اور کون سا بانجھ پن ہے جو 24کروڑ لوگوں کے اس ریوڑ پر اترا اور ذہنی طور پر لولے لنگڑے بہرے اور کم عقل لوگ اس قوم کے میر کارواں بن گئے۔ہم ان 76سالوں میں تنزلی میںکہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور گزشتہ 5سال تو اس قوم پر بڑے ہی کڑے ثابت ہوئے اور ان برسوں نے قوم کو مزید بڑی آزمائشیوں میں دھکیل دیا۔شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ یہ اسمبلی اور اس میں بیٹھے عوام کے نمائندے عام پاکستانی کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ ان کی اس دو ٹوک تقریر پر بہت سے بیٹھے ارکان کے ماتھے پر شکنیں ضرور پڑی ہوں گی لیکن جی ہاں حقیقت یہی ہے بالکل یہی۔جس ملک کی اکثریتی آبادی کی کشتی کے ناخد ا ہی بے حس اور مفاد پرست جاگیردار ہوںاس ملک میں بھوک ،افلاس اور بیماری نہیں ہو گی تو اورکیا ہو گا؟ اس سے بڑا ظلم لوگوں پر اورکیا ہو گا کہ اس ملک میں 21ویں صدی میں بھی فیوڈل ازم ختم نہیں ہو سکا۔جس ملک میں ظلم‘ جبر اور استحصالی کا نظام بلا تامل جاری و ساری ہو اور وہ نظام جسے برطانیہ نے 1666میں اکھاڑ پھینکا تھا، جسے بھارت نے آزادی کے ساتھ ہی کچل دیا تھا ،جس پر پوری دنیا میں کم و بیش پابندی لگ چکی ہو، اس ملک کے لوگ گونگے بہرے اور بے بس نہیں بنیں گے تو کیا بنیں گے؟۔جناب شاہد خاقان عباسی صاحب آپ نے ٹیکس وصولی کے جس نظام کی بات کی ہے میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ بھی اس ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں کیا آپ ان جاگیرداروں وڈیروں اور فیوڈلز سے ٹیکس وصول کر سکتے ہیںجو لنڈی کوتل سے گوادر اور واہگہ سے چمن تک پھیلے ہوئے ہیں۔ جو چودھری‘ملک‘ لغاری‘ کھوسہ‘ نواب‘ مینگل‘ بگتی‘ مگسی ‘ تالپور اور شاہ کہلاتے ہیں جن کی زمینوں پر لاکھوں مزارعے جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کے بچے دنیا کی مہنگی ترین درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جو ہر سال کروڑوں روپے اپنے اللے تللوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔جن کی رہائش گاہیں چاروں دارالحکومتوں اور اسلام آباد میں موجود ہیں ۔جو ہر سال یورپ اور امریکہ میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں ۔جو مہمانوں کو لاکھوں روپے کے روٹی ٹکڑ کھلا دیتے ہیں ۔جن کے کتے ،گھوڑے، اونٹ اور بٹیر دیسی گھی انڈوں مربوں اور منرل واٹر پر پلتے ہیں، جو ہر سال کروڑوں کی گاڑیاں خریدتے ہیں لیکن ٹیکس مجموعی طور پر صرف لاکھوں میں ادا کرتے ہیں۔ جناب خاقان عباسی کیا آپ ان کھرب پتیوں سے ٹیکس وصول کریں گے جو صرف چند لاکھ ٹیکس دیتے ہیں ۔ طرفہ تماشہ یہ کہ جو سرکاری اور نجی ملازمین ہیں آپ ان کی تنخواہوں سے ٹیکس وصول کر لیتے ہیں۔ پھرجہاں انکم ٹیکس ‘ کسٹمز‘ عوامی ترقیاتی ادارے اور دیگر درجنوں ایسے پرکشش ادارے ہیں جن کا چھوٹے سے چھوٹا ملازم بھی کروڑوں روپے کی پراپرٹی کا مالک ہے اور وہ ذاتی پرکشش گاڑی پر دفتر آتا ہے‘ بچوں کو مہنگے ترین سکولوں میں تعلیم دلاتا ہے۔ ان سے کیسے ٹیکس وصول کریں گے جہاں ہر سرکاری محکمے کی ایک ایک آسامی پرٹرانسفر ‘ پوسٹنگ کے لاکھوں کروڑوں کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں ہوں۔جہاں ہر فیکٹری ہر ادارے اور ہر سیٹھ نے ٹیکس بچانے کے لئے چارٹرڈ اکائونٹس رکھے ہوئے ہوں۔جناب عباسی صاحب آپ اس ملک میں کس شخص سے ٹیکس وصول کریں گے؟ کیا آپ کو لغاری‘ مزاری‘ کھوسے‘ مخدوم‘ مینگل‘ بگٹی‘ مخدوم ٹیکس دیں گے۔کیا بڑے بڑے کارخانہ دار، سیٹھ اور کاروباری شخصیات آپ کے سامنے اپنی تجوریاں کھول کر رکھ دیں گے۔ جناب خاقان عباسی آپ کو ان لوگوں سے کچھ نہیں ملے گا ۔کیا کبھی لوٹنے والوںنے بھی زکوٰۃ دی ہے ،چیلوں کے گھونسلوں سے بھی کبھی ماس ملا ہے اور دیمک نے بھی کبھی لکڑی کی حفاظت کی ہے ؟کوئی وزیر اعظم آ جائے ،سب نے آ کردیکھ بھی لیا۔نواز شریف ‘آصف علی زرداری ‘عمران خاں‘ شہباز شریف‘ مشرف‘ ضیاء الحق ‘ بھٹو ‘ ایوب سب آئے اور چلے گئے آپ جس کو چاہیں لے آئیں کچھ حاصل نہ ہو گا۔دنیا کا کوئی شخص پتھروں سے رس نہیں نچوڑ سکتا، آپ خود بتائیں جن کے باڈی گارڈز کی تعداد ڈھائی سو ہو اور وہ انکم ٹیکس صفر دیتا ہو جو اپنے قبیلے کا سردار ہو اور ماہانہ کروڑوں کماتا ہو اور اس کا انکم ٹیکس صفر ہو۔ جو کروڑوں کی کپاس اگاتا ہو اور انکم ٹیکس صفر دیتا ہو۔آپ ان سے ٹیکس وصول کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں جن کی طرز رہائش میں نوابوں کی جھلک ہو لیکن ان کاانکم ٹیکس صفرہو۔آپ ان لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں جن کے ہوٹلوں کے بل لاکھوں کروڑوں میں ہوتے ہیں لیکن وہ انکم ٹیکس صفر دیتے ہیں۔ آپ ان خواتین سے ٹیکس وصول کرنے چلے ہیں جن کی تیسری انگلی کی صرف ایک انگوٹھی دس لاکھ میں خریدی جاتی ہے۔جن کے ایک نیکلس کی قیمت ایک لاکھ پائونڈ سے زیادہ ہے۔ آپ ان سیاستدانوں سے ٹیکس وصول کریں گے جن کی امارت کے قصے ہر زبان پر ہیں۔ آپ نے جو کہا بالکل ٹھیک کہا۔لیکن یقین جانیں اس ملک میں کچھ بہتر ہونے والا نہیں۔اس ملک کی تقدیر میں بہتری ،معیشت میں ترقی اور عام آدمی کی خوشحالی کی امید اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا نہیں کر دیا جاتا۔