ہمارے ملک میں ایک بار پھر جمہوریت محض اقتدار پر قبضے کے لیے نیلام کر دی گئی ہے اور ہمارے نام نہاد رہنما عوام سے ان کی حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے موجودہ لیڈروں نے اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا ہے جو اقتدار میں آنے کے لیے کچھ بھی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے ۔ اسلامی جمہوری اتحاد (1988) جیسے حکومت مخالف اتحاد بنائے۔ پاور بروکرز سے فنڈز حاصل کیے، جیسے کہ 1990 کی دہائی میں ایک نجی بینک کے سی ای او جس کی وجہ سے بینک کا خاتمہ ہوا۔ مہران بینک اسکینڈل کی تفصیلات کے لیے، سپریم کورٹ کا 18 اکتوبر 2012 کا مختصر حکم نامہ پڑھنا چاہیے۔تاہم، یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا اور نہ آخری بار کہ اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کے ایک گروپ نے گٹھ جوڑ کیا ہو۔ جب بھی کسی اپوزیشن نے حکومت کے خلاف کوئی تحریک شروع کی ہے تو اس کی شروعات یا تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کی جاتی ہے یا پھر اپوزیشن کی طرف سے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ناراض اراکین پارلیمنٹ کی مدد سے۔ زیادہ تر جو حکومت بنتی ہے، یہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی اشتراک کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تاہم حکومت سازی کے بعد فائدہ اٹھانے والے (سیاستدان) اپنے محسنوں (اسٹیبلشمنٹ) پر حکومتی معاملات میں "مداخلت" کا الزام لگاتے نظر آتے ہیں۔ کیوں؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد تعلقات اور حیثیت کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے ۔ یہاں تھوڑی سی وضاحت درکار ہے۔ ہر پارلیمانی پارٹی، بشمول اپوزیشن ارکان،حکمرانی کا حصہ ہوتے ہیںکیونکہ وہ منتخب ایوانوں کی ذیلی کمیٹیوں کے ممبر یا چیئرمین ہوتے ہیں ۔ گوکہ وہ حکمرانی کا حصہ ہیں لیکن حکومت کا حصہ نہیںہوتے۔ اس عدم توازن کو اپوزیشن ایک خطرے کے طور پر لیتی ہے جو اکثر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ کا باعث بنتاہے ۔ یہ عدم توازن اپوزیشن کو کسی غیر سیاسی قوت کی مدد سے حکومت گرانے کی طرف دھکیلتا رہتا ہے ۔ چونکہ ملک میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے پاس اسٹریٹ پاور اور عوامی قوت کی کمی ہے (بڑی جماعتوں کے چھوٹے ووٹ بینک پر غور کریں)، وہ خطرے سے نمٹنے کے لیے دو چیزوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں یعنی پیسہ اور منظم طاقت۔ جب کہ پارٹیوں کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہے لیکن وہ منظم طاقت میں بہت کم ہیں۔ حکومت کا تختہ الٹنے اور الیکشن جیتنے کے بعدیہ پچھلے دور کی حزب اختلاف کی جماعت ہے جو عام طور پر اقتدار کی راہداریوں پر چڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ نئی طاقت کی حرکیات ابھرتی ہیں. نئی حکمراں جماعت/اتحاد غلطی سے یہ سمجھتا ہے کہ اب تمام طاقتیں ان کے ساتھ ہیں اور جن لوگوں نے انہیں اقتدار تک پہنچنے میں مدد کی ہے وہ ان کے ماتحت ہوں گے۔ یہ صورتحال سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کا سبب بنتی ہے، جس سے اکثر سیاسی عدم استحکام اور معاشی خلل پیدا ہوتا ہے۔ جب بھی ہم نے جمہوریت کی بحالی کے لیے ’’جدوجہد‘‘ کا مشاہدہ کیا جس کا اختتام کامیابی پر ہوا، اقتدار پر قبضہ کرنے والے ان سے بدتر ثابت ہوئے۔ پچھلی سات دہائیوں سے ہم اس شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔حالیہ سیاسی کھینچا تانی اس سے مختلف نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دانوں نے فوجی آمروں سے زیادہ سویلین حکومتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ تھوڑا سا حساب کتاب لگایا جائے تو حقیقت ظاہر ہو جائیگی۔ کوئی تعجب کی بات نہیں، محنت کش طبقے اور دانشوروں نے خود کو سیاسی عمل سے الگ کر لیا ہے، بشمول اپوزیشن جماعتوں کی موجودہ مہم۔ بہت حد تک سیاسی اشرافیہ اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ مثال کے طور پر نچلی سطح پر سیاسی جماعتوں کو منظم کرنے کے بجائے سویلین اشرافیہ نے سول سوسائٹی کو تباہ کرنے کا کام کیا۔ طلباء یونینوں کو اجازت دینے کے بجائے انہوں نے سیاسی جماعتوں کے یوتھ چیپٹرزقائم کر لیے، جنہیں شرپسندوں نے چلایا۔ ٹریڈیونینز (جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی) کو مضبوط کرنے کے بجائے انہوں نے اپنے لیڈروں کو سیاسی جماعتوں کے لیبر ونگز میں شامل کرکے رشوت دینے کا انتخاب کیا۔ پارٹی کے ڈھانچے میں خواتین کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے بجائے انہوں نے خواتین کے الگ الگ ونگز بنائے جن کا کنٹرول مرد لیڈروں کی بیٹیوں اور بیویوں کے پاس تھا۔ انہوں نے اقدار کو فروغ دینے کے بجائے کرپٹ طریقوںکی حوصلہ افزائی کی ہے۔ عوام کی توجہ اپنے ادھورے وعد ے پورے کرنے کی بجائے نئے پر جوش وعدے کئے۔ سپریم کورٹ کے احکامات، عوامی مطالبات اور میڈیا کے دباؤ کے باوجود حکمران جماعتیں قانون کی بالادستی کو آسانی سے نظر انداز کر دیتی ہیں۔ پارٹی الیکشن کرانے کے بجائے اوپر سے نیچے تک عہدے داروں کو نامزد کیا جاتا ہے۔چیپٹرXI، الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 208 کے تحت ہر رجسٹرڈ پارٹی کو مستقل بنیادوں پر داخلی پارٹی انتخابات کرانا چاہئیں۔ سیکشن 208 کے علاوہ ایکٹ کے ہر دوسرے حصے پر الیکشن کمیشن عمل درآمد کرواتا ہے سوائے اسکے۔ جو سیاسی جماعتیں اندرونی طور پر جمہوریت پر عمل نہیں کرتیں، وہ ملک کو جمہوری طریقے سے نہیں چلا سکتیں۔ اسی ذہنیت نے سول سوسائٹی کو بھی متاثر کیا ہے۔ ذرا دیکھیں کہ سول سوسائٹی کی تنظیمیں کیسے کام کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ این جی اوز کے سربراہ بھی جاگیردار اشرافیہ جیسا برتاؤ کرتے ہیں اور این جی اوز، ٹریڈیونینز، انجمن تاجران وغیرہ کے عہدیداروں کو چننے کے لیے بھی الیکشن میں ووٹ خریدنے کا رواج عام ہے۔اشرافیہ کی اس سیاست کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ سول سوسائٹی سیاستدانوں کے طرز عمل پر نظر رکھنے کا اخلا قی جواز کھو چکی ہے۔اس نے بدعنوان اشرافیہ کو ہارس ٹریڈنگ جیسے غیر قانونی طریقوں میں ملوث ہونے کی مزید حوصلہ افزائی کی ہے۔ اسلام آباد میں ایک صوبائی ہائوس آج کا چھانگا مانگا بنا۔ ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ خریدنے کے عمل نے اس کے اہلکاروں کی مہارت کو چمکا دیا ہے، جوقومی اسمبلی میں پیش کی جانے وا لی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لیے سرگرم ہیں۔ اسکی کامیابی سیاست اور جمہوریت پر عوام کے اعتماد کو مزید ختم کر دے گی۔ سول سوسائٹی اور دانشوروں کو سیاست میں اصولوں اور اخلاقیات کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔