گھر میں شوہر ، اہلیہ اور ساس بھی موجود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے ! میری پیاری، نیاری، کراری، دکھوں کی ماری، آدھی یا ساری بہنو سنو! جیسے چاہو خیالات کے تانے بانے بُنو پر میری ہمت اور بہادری کے واقعات پہ سر دُھنو۔ مَیںاپنا حال بتاتی ہوں، عاشقوں کو تڑپاتی ہوں، حاسدوں کو ہنساتی ہوں، خود روتی اور سب کو رُلاتی ہوں ، غرض یہ کہ اپنا قصہ خود ہی سناتی ہوں۔ پچھلی صدی کے سہانے سالوں میں ، فدویہ نے ایک عجیب و غریب (غریب کم عجیب زیادہ) گھرانے میںآنکھ کیا کھولی کہ زمانے کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جو بھی میری دید کو آتا ، آنکھوں کا دیکھا ، آنکھوں ہی سے بیان کرنے کی کوشش کرتا۔ میرے ایک دانااور دیوانہ وار بزرگ بتایا کرتے تھے کہ انسانی چہروں کے لیے چودھویں کے چاند کا روزمرہ میری پیدائش کے فوراً بعدہی لوگوں کی زبانوں سے، اُردو زبان میں در آیا تھا۔ انکل نے یہ بھی بارہا بتایا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جانے والا محاورہ تو میرے لڑکپن کے زمانے کی ایجاد ہے۔ بچپن سے لڑکپن کا سفر جیسے تیسے بھی گزرا، اَب اُسے عافیت کہنے ہی میں خیریت ہے۔ اُن رشتہ داروں سے حد درجہ کوفت ہوتی، جو مجھے دیکھتے تو ان کی وہی کیفیت ہوتی، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، گھر میں بیٹی بہو نہیں۔ دادی جان مجھے دیکھ دیکھ کے پہلے تو کُڑھا کرتیں، پھر کہا کرتیں، بیٹیاں اور بکائنیں تو آنکھوں میں دُھول جھونک کے بڑی ہو جاتی ہیں۔ میری مرحوم امّاں جان بتایا کرتی تھیں کہ اس زمانے میںاتنے پیسے میرے کپڑے لتوں پہ خرچ نہیں ہوتے تھے، جتنے نظریںاتارنے میں صرف ہونے لگے۔ پھر بھی نہ جانے اماں مجھے ہر وقت بندریا، چوہیا اور چڑیل جیسے نت نئے القابات سے نواز کے اپنی بات کو کیوں مشکوک بناتی رہتیں۔ ویسے اماں کسی کو خاطر میں نہ لاتیں بلکہ ہر کس و ناکس کی’ خاطر‘ کرنے کو ہمہ وقت تیار ملتیں، اس ’خاطر مدارات‘ کا مجھے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ سماجی زندگی کے کچھ عجیب و غریب الفاظ میرے باطنی لغت میں خود بخود شامل ہوتے چلے گئے۔ اب آپ سے کیا پردہ !! ’چھچھورے‘ کا لفظ مجھے محلے کے لڑکوں نے سُجھایا۔ ’رَشک‘ کی بابت ہم عمر لڑکیوں نے آگاہی دی۔ ’سراپا‘ کی چغلی کھانے کی ذمہ داری اُن دنوں آئینے نے سنبھال رکھی تھی۔ ’ہڈ حرام‘ اور ’نکھٹو ‘ کے الفاظ کہیں ابا جی اور بھائیوں کے مابین گڈ مڈ سے ہو گئے تھے۔ کوئی جھڑوس قسم کے رشتے دار سامنے آجاتے تو ’شہدے کمینے‘ کے الفاظ میری لغت میں آپ ہی آپ پھڑپھڑانے لگتے۔ ابا کے مرنے کے بعد تو اماں کئی بار کہہ چکی تھیں کہ یہ بھڑوے پھیری والے ردی کاغذ، پرانے لوہے، گلے سڑے نائیلون، حتیٰ کہ ٹوٹے جوتوں کے عوض بھی کچھ نہ کچھ دینے کو تیار ہوتے ہیں ، ان موئے رشتے داروں کے بدل میں کوئی پلاسٹک کی پیالیاں حتیٰ کہ بے موسم کے پھل تک نہیں دیتا۔ پھر لڑکپن سے جوانی کا سفر آپ کو کیسے بتاؤں کس طَور کٹا؟ لڑکپن کو تو ویسے ہی ہمارے ہاں کے بعض بڑے بوڑھے جانے کس خیال سے لُڑھک پن کے نام سے تعبیر کیا کرتے۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اُس عمر میں ہم جو بھی کام کرنے لگتے، وہ یا تو غلط ہوتا یا گھر والوں کو غلط نظر آتا۔کیونکہ روک ٹوک،نوک جھونک،تھپڑ دھموک، اس زمانے میں ہمارا کل نصاب تھا۔ یوں جانو کہ زندگی کیا تھی سپیچ بریکروں کا قبرستان تھی۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ جوانی میں،مَیں ایک سوشل ورکر ہوا کرتی تھی، بلکہ آپس کی بات ہے ورکر تو کم کم تھی، سوشل حد سے زیادہ تھی۔ محلے کے سارے لپاڈے اپنے اپنے مسائل اور تحائف کی گٹھڑیاں اٹھائے سارا سارا دن میرے دروَجّے پہ ہاکی کے گول کیپر کی مانند کھڑے رہا کرتے تھے۔ اپنی دیدہ دلیری کی کہانی کیا سناؤں؟ ایک معروف شاعر نے تو مجھے یقین دلا دیا تھا کہ اس نے اپنی آدھی شاعری میری بابت سوچ سوچ کے تخلیق کی ہے۔ تنہائی کی ملاقاتوں میں تو وہ برملا فرماتے کہ یہ والا شعر تو خاص طور پہ لکھا ہی میری قامتِ قیامت خیز دیکھ کے تھا: اُس کا جو سراپا ہے، کب کسی نے ناپا ہے سرسراتا جوبن ہے، سر پھری جوانی ہے پورے اُردو ادب کو شک کی نظروں سے دیکھنے والے ایک نقاد نے بتایاکہ یہ شاعر تو وہ نظمیں جہاں بھرکی حسیناؤں کو منھ بھر بھر کے سنایا کرتا، آنکھیں اورجھولیاں بھر بھر کے گھر کو آیا کرتا۔تب مَیں نے اس ظالم،ہرجائی شاعر کو سبق سکھانے کی غرض سے نَیب سے بھی رجوع کیا،لیکن وہاں سے تحریری جواب آیا کہ کسی فن پارے کے جذباتی حقوق کسی دوسرے فرد کو منتقل ہونے یا نہ ہو سکنے کا ضابطہ ابھی ہمارے دائرہ قانون میں تو کیا،احاطۂ خیال میں نہیں آیا۔ ویسے بھی ہمیں ابھی سیاست دانوں کے کیس ختم کرنے سے فرصت نہیں! میری ہکا بکا بہنو! دیگر لوگوں کی دیدہ دلیری کا کیا حال سناؤں، کئی دور دراز کی رشتہ خور آنٹیاں جو محلے بھر کے آوارہ لڑکوں کی سنجے دت کے سٹائل میں کھنچوائی ہوئی وائٹ بیک گراؤنڈ والی پاسپورٹ سائز تصویریں اپنے کرایہ طلب پرسوں میں، برسوں سے ڈالے مجھے دیکھنے آتیں تو میری ایک جھلک پاتے ہی سب چوکڑی بھول کر اپنے ہی بی کام اور بے کار لمڈوں کے غلو آمیز قصیدے سنا سنا کے مجھے ’ممانی خیز‘نظروں سے دیکھا کرتیں۔ ابھی پچھلے دنوںایک سالگرہ میں ایک خوب رُو، نٹ کھٹ، شریر سا لڑکا، جس کی شکل، مزاج اور عادتیں ہو بہو وحید مراد اورمیری من کی مراد سے ملتی تھی، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہنے لگا: ’’ڈارلنگ! مجھ سے یہ بتائے بِنا نہیں رہا جا رہا کہ تمھاری آنکھیں جھیل سیف الملوک سے کہیں زیادہ گہری ہیں‘‘ بہن ! کیا عرض کروں پہلے تو مجھے اُس موئے، کمینے، کٹ کھنے پہ بہت غصہ آیا ، جی میں آیا کہ اس کی بے لگام لُتری تالو سے نکال کے بھالو کے آگے ڈال دوں۔ پھر ایک سکھی نے سمجھایا تو قیاس میں آیا کہ اتنا غصہ بھی ٹھیک نہیں، اس کے کون سا بس کی بات ہے ، مجھ پہ نظر پڑتے ہی بے اختیار منھ سے نکل گیا ہوگا، اُس کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو کون سا اس سے مختلف بات کہتا؟ یہ بات مَیں آپ کے بھی گوش گزار کرتی چلوں کہ اس زمانے میں میرا غصہ اور کالا چشمہ ہمیشہ ناک پہ دھرے رہتے تھے۔ اگر وہ نگوڑا صد فی صد سچ نہ کہہ رہا ہوتا تو کیا خبر میں اس کا کیا حال کرتی! کبھی غرور نہیں کیا لیکن سچ کہہ رہی ہوں کہ ان دنوں، اِن آنکھوں کی گہرائی کے پورے شہر میں چرچے تھے۔ آپ کو کیا بتاؤں محلے کے کئی چھچھورے تو اِن میں ڈوبنے کے لیے روز نیکریں گھر سے پہن کے آ جایا کرتے تھے۔ گلاب کے پھولوں والے لیٹر پیڈ پہ لکھ لکھ بھجواتے کہ: بھولتا ہی نہیں اندازِ سخن ایسا تھا بات ایسی تھی، لب ایسے تھے، دہن ایسا تھا (جاری ہے)