اوقاف کے شعبہ مطبوعات نے گراں قدر کُتب کی اشاعت کا اعزاز پایا ،جن میں مصر کے مشہور سکالر اور فقیہ الشیخ عبدالرحمن الجزیزی کی مایہ ناز تصنیف’’ کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘‘جس میں جملہ مسائل فقہ از قسم عبادات،معاملات و شخصی قوانین اورحدود و تعزیرات مذاہب اربعہ حنفی،مالکی،شافعی اور حنبلی کی روشنی میں بڑی شرح و بسط سے بیان کیے ہیں،سمیت دیگر شامل ہیں،انہیں میں سے ایک ،محمد دین فوق کی’’ سوانح حیات حضر ت داتا گنج بخشؒ ‘‘ کا ساتواںایڈ یشن اشاعت پذیر ہونے کو ہے ۔جس کی دیباچہ سازی کا فریضہ،اس وقت درپیش ہے۔ اگرچہ ابتداً یہ تصنیف لطیف1914ء میں منصہ شہود پہ آئی ، تاہم محکمہ ہذا کے زیرِ اہتمام سال1980ء میں یہ پہلی مرتبہ طبع ہوئی ، گزشتہ نصف صدی میں، کثرت کے ساتھ اِس کی اشاعت ، اِس کے معتبر اور مستند ہونے کی دلیل ہے ۔ کتاب کے مصنف منشی محمد دین فوق اُردو کے انشاء پر داز ، شاعر، مورخ ، اخبار نویس و مصنفِ کتب ِ کثیرہ اور مختلف موضوعات پر کم و بیش پچانویں کے قریب تصنیفات و تالیفات کے حامل ہیں، جن میں لاہور کے حوالے سے مأثر لاہور،یادرفتگان (تذکرہ ٔ صوفیائے لاہور )تذکرہ ٔ علماء ومشائخ،لاہور عہد ِ مغلیہ میں سمیت دیگرمعروف و معتبر ٹھہریں،لیکن موصوف کی زیرِنظر کتاب کو زیادہ قبولِ عام میسر آیا،جسکا سبب اس کا اختصار اور جامعیت ہے۔مصنفِ محترم بنیادی طور پر صحافی تھے اور اپنے عہد بمطابق 31 جنوری 1896ء ، چار سال تک پیسہ اخبار سے منسلک ہو کر صحافت اور اخبار نویسی میں درق حاصل کیا ۔ ازاں بعد ہفتہ وار میگزین اور اخبار بھی نکالا۔ آبائو اجداد کا تعلق کشمیر سے تھااوراُن کے پردادا، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں پنجاب آئے اور سیالکوٹ کے نواح ، موضع گھڑتل میں سکونت اختیار کی ۔ منشی محمد دین فوق، فروری 1877ء میں سیالکوٹ کے نواح میں واقعہ کوٹلی ہر نرائن میں پیدا ہوئے اور گھڑ تل،جامکے،گوجرانوالہ اور لاہور میں تعلیم حاصل کی،والد کی نگرانی میں پٹوار کا کام سیکھا،پھر چند ماہ فیصل آباد،آباد کاری میں گزارے،ازاں میں تحریر و تصنیف و تذکرہ نویسی اور صحافت و اخبار نویسی سے منسلک ہوگئے۔تذکرہ نگاری اور اسلاف کی روایات کی ترویج اور تشہیر سے پسماندہ طبقات کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے اور غربت،افلاس اور جہالت کے خاتمے کے لیے مقامی آبادیوں کو ہمت و حوصلہ دینے کی سعی میں منہمک رہے۔جس کے لیے اُمّت کے مشاہیر اور بزرگان ِ سلف کے روایات وواقعات سے سبق آموزی اور نتیجہ خیزی کا بطور خاص اہتمام کیا ۔ موصوف علامہ اقبالؒ سے بہت سی مناسبتوں کے حامل تھے،1877ء میں سیالکوٹ کے نواح میں پیدا ہوئے،جو کہ علامہ اقبالؒ کا سالِ ولادت ہے،کشمیر سے آبائی تعلق اور تصوّف و طریقت کی طرف رغبت جیسے داعیئے ، اور اشاریئے اقبال ؒ سے اکتسابِ فیض کا ذریعہ اور حضرت داتا گنج بخشؒ سے نسبت کا وسیلہ بنے۔زندگی میں عروج اور ارتقاء محض ظاہری اور مادی وسائل سے ممکن نہیں،اس کے لیے باطنی اور روحانی عوامل بہت زیادہ کار فرما ہوتے ہیں ۔ بالخصوص لاہور میں وارد ہونے کے لیے حضرت داتا گنج بخشؒ کا آستاں ظاہری اسباب اور وسائل کے اعتبار سے بھی معتبر ہے کہ ابتدائی طور پر میزبانی اسی بلند مقام سے میسر آتی ہے،کھانے کو ہمہ وقت لنگر اور رہنے کو آپؒ کا جوار اور محبت آمیز قرب--- کہ جہاں معاش اور حیات کی تنگی کا گلہ کر کے اپنے دِل بوجھ بھی ہلکا کرنے کا اہتمام اور "Catharsis" --- تاکہ نفسیاتی عوارض راہ نہ پاسکیں ۔ فیشن ڈیزاننگ کی دنیا کا معروف نام محمود بھٹی جو کہ اب فرنچ نیشنل ہے، نے مجھے از خود بتایا کہ ہم سمن آباد پکی ٹھٹھی کے رہنے والے تھے،غربت کے سبب دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی تھی ، ہمارا گزر اوقات داتاؒ دربار کے لنگر پہ ہوتا تھا ۔ بیسیوں مثالیں ہیں ، اِخفا موزوں ہے ، ایک صحافتی ادارے کے بانی اور سربراہ ، جواَب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، کے سعادت مند بیٹے باقاعدگی سے داتاؒ دربار میں لنگر کی تقسیم کا اہتمام کرتے ہیں ، استفسار پر انہوں نے بتایا کہ والد جب لاہور آئے تھے تو داتاؒ دربار کے علاوہ نہ کوئی آسرأ تھا اور نہ ٹھکانہ ۔ چنانچہ اس مردِکامل کی بارگاہ اور خانقاہ میں خوردونوش اور قیام و طعام کی بہم رسانی کے سبب،اس بنیادی فکر سے آزاد ہوکر ، دن بھر روز گار کی تلاش میں سرگرداں اور زندگی کی دوڑ میں مستعد اور نمایاں ہونے کے لیے یقینِ محکم او رعمل پیہم کی راہ پہ گامزن رہتے ۔ اس صاحبزادے نے بتایا کہ میرے والد نے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ داتاؒ در بار میں لنگر کی تقسیم کا یہ اہتمام جاری رکھنا کہ جس سلسلہ خیر نے مجھے مستفید کیا ، اَب میں بھی اِس میں حصّہ ڈالنے کے قابل ہوا ہوں---تو آنے والوں کے لیے راستے کشادہ رکھوں ۔ بہر حال--- منشی محمد دین فوق کا اسلوب تحریر و تحقیق بر جستہ اور سبک خرام ہے ، بات واضح اور د و ٹوک کرنے اورمختصرسطور میں مدعا بیان کرنے کا داعیہ اور ملکہ رکھتے ہیں۔جس کا اندازہ اِ س اَمر سے لگایاجاسکتا ہے کہ ان کے بقول یہ کتاب،انہوں نے محض دو ماہ میں مکمل کرلی،جس کا سبب احباب کی علمی معاونت اور صاحبِ مزار کی خصوصی توجہ ہے ۔ بلاشبہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے علوم و معارف اور احوال و افکار کا واحد اور بنیادی مصدر کشف المحجوب ہے ۔ جس کا شمارامہات کتب تصوّف میں ہوتا ہے اور بالخصوص فارسی میں یہ پہلی اور بنیادی کتاب ہے ۔ جس کو اوّلیت کا اعزاز میسر ہوا ۔ غالباًاس رعب اور علمی مقام کے سبب کسی مصنف و محقق میں قلم کشائی کی جرأت و ہمت نہ ہوسکی ۔ بنابریں اِن گمشدہ کڑیوں "Missing Links" کو محمد دین فوق نے کمال ہمت سے مربوط اور مدوّن کیا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ معتبر حوالوں سے صرف آپؒ کی لاہور تشریف آوری بمطابق 431ھ اور سال وصال 465ھ متحقق ہے ۔ لیکن آپؒ کے سالِ ولادت کے حوالے سے کوئی مستند اور معتبر حوالہ میسر نہ ہے ۔ چنانچہ مصنفِ محترم کی اِس ضمن میں زن و تخمین "Calculation" عمدہ ہے ، کہ لاہور تشریف فرما ہونے سے قبل آپؒ ماورأ النہر ، خراسان آذربائیجان کے علاقوں میں سیاحت فرما ہونے کے ساتھ ، اپنے شیخ حضرت ابو الفضل الختلی کی خدمت میں حاضر رہ کر ، اکتسابِ فیض اور اجازت و خلافت سے متصف ہوکر ، ان کی اجارت و ایما پر لاہور جلوۂ افروز ہوئے ، جب کوئی شیخ اور پیشوا اپنے نائب اور خلیفہ کو کسی خاص مشن اور مہم پر کسی مخصوص علاقے یا خطّے میں بھیجتا اور اہم امور اور ذمہ داری تفویض کرتا ہے تو اس وقت اس کی عمر تیس سال سے کم تر خیال کرنا موزوں نہ ہے ۔ اس لیے کہ منصبِ دعوت و تبلیغ اور مسند ِرشد و ہدایت پر فائز اور مخلوق ِ خدا کی رہبری اور راہنمائی کی بجاآوری جیسے اہم امورکی انجام دہی کے لیے ایک خاص عمر،علم ، عمل ، تجربہ ، ریاضت اور مجاہد ہ کی پختگی درکار ہوتی ہے ، جس کے بغیر کوئی شیخ اپنے مریدِ صادق و کامل کو اِس اہم ذمہ داری پر مامور نہیں کرسکتا اور اگر آپ کی کم ازکم عمر تیس سال تصوّر کر لی جائے تو پھر آپ کا سالِ ولادت 400ھ بنتا ہے ۔ اور یوں آپ کی ولادت کا اعزاز سلطان محمود غزنوی کے عہد کو میسر ہوا۔ یعنی امیر سبکتگین کی وفات کو تیرہ سال گزر چکے تھے ، لاہور اس کے حملوں سے لاحظہ کریں) پامال اور ہندوستان سلطان محمودغزنوی کی یلغار کے لیے بالکل کشادہ ہوچکا تھا ۔ آپؒ کی ولادت کے عہد میں محمود غزنوی کشورکشائی کے ساتھ علم پروری میں بھی نمایاں اور معتبر تھا ۔ غزنی سلطنت علماء ، صوفیائ، فقہا اور شعرأ کا مسکن تھی۔ سلطان از خود صوفیاء و فقرأ اور گوشہ نشین بزرگوں کا معتقدتھا ۔ ابوالحسن خرقانی جیسے جلیل القدر صوفیاء کی بارگاہ میں حاضری کا شرف پاتا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے خانوادے کے ساتھ اُنس اور محبت رکھتا تھا ۔