ذہنی بیماری کا المیہ یہ ہے کہ جسم کی عمارت بظاہر ٹھیک ہوتی ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی کہ حالات کی ستم گری نے ذہنی توازن کی دیوار میں خوفناک دراڑ ڈال دی ہے .اداسی کی زرد آکاس بیل زندگی کی شادابی چاٹ جاتی ہے مگر بظاہر سب ٹھیک نظر آتا ہے۔کچھ عرصہ ہوا ، ایک خاتون جو میرے کالموں کی قاری تھیں انہوں نے میرے ساتھ رابطہ کیا اور اپنامسئلہ بتایا۔بظاہر ان کی زندگی کی ہر تصویر مکمل تھی، ایک سرکاری افسر کی بیوی، تین پڑھے لکھے تعلیم یافتہ بچے دو بیرون ملک سے تعلیم یافتہ پھر تینوں بچوں کی اچھے گھروں میں شادیاں ہوچکی تھیں۔ لاہور کی پوش سوسائٹی میں اپنا گھر بنایا جسے بڑی محبت سے سجاتی سنوارتی رہتیں۔شوہر اگلے گریڈ میں ترقی پانے والے تھے، بچے اپنی زندگیوں میں خوش باش تھے مگر ان کی اپنی زندگی بہت تکلیف سے دوچار تھی۔بظاہر سب کچھ مکمل اور خوبصورت تھا لیکن ان کے اندر کی خوشی اور اطمینان کی اس روشنی سے خالی تھی۔شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقات کے سب تانے بانے ادھڑے ہوئے تھے۔سالہاسال تعلقات کی سرد مہری بالآخر ان کی ذہنی بیماری کا باعث بنی۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنی فیملی کی تصویریں پوسٹ کرتی رہتی تھیں جس میں وہ بہت مطمئن خوبصورت دکھائی دیتیں سیر و تفریح ،ہوٹلنگ ،مسکراتی ہوئی مطمئن دکھائی دینے والی تصویریں دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں ذہنی تکلیف سے گزر رہی ہیں۔جب انہوں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا تو سالہاسال کی بے کیفی اور اداسی شدید اینگزائٹی کے خوفناک مونسٹر میں بدل چکی تھی۔وہ فون پر اپنا حال دل مجھے سناتی رہیں کہ پہلے تو دل گھبرانا،پسینے آنا ،بلڈ پریشر کا غیر معمولی اوپر نیچے ہونا شروع ہوا پھر وقتا فوقتاً انہیں پینک اٹیک ہونے لگے ۔بچے اور شوہر یہی سمجھے میں بچوں سے دوری کی وجہ سے اداس رہتی ہوں اس لیے ایسا ہونے لگا ہے۔لیکن مجھے خود اندازہ تھا کہ برسوں میں نے کیسی بے کیف زندگی جی ہے اور اب میں اسے برداشت کرتے کرتے تھک چکی ہوں۔خاتون کسی اچھے سائیکالوجسٹ سے ملنا چاہتی تھیں مگر رکاوٹ یہ تھی کہ شوہر کوکیسے قائل کریں۔ وہ جانتی تھی کہ ان کے شوہر کسی طور اس بات کو نہیں مانیں گے وہ دو دو چار پر یقین رکھنے والے ایک اکاؤنٹ آفیسر تھے۔ میں نے انہیں ایک خاتون سائکالوجسٹ کا بتایا۔کافی عرصے کے بعد ان کا فون آیا تو انہوں نے بتایا کہ شوہر کسی طور بھی ان کے ساتھ سائیکالوجسٹ کے پاس جانے کو تیار نہیں تھے۔ان کی زندگی میں ذہنی بیماری کی اذیت اتنی بڑھنے لگی کہ ایک روز وہ خود ہمت کرکے سائیکالوجسٹ سے وقت لے کر مشورے کے لیے چلی گئیں۔علاج شروع ہو چکا ہے اور طبیعت بہتر ہونے لگی۔ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے سماج میں ذہنی بیماریوں کو بیماری نہیں سمجھا جاتا۔ ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جانا تو دور کی بات ہے۔ ذہنی بیماری کو ہمارے ہاں Tabbo سمجھا جاتا ہے۔ سب سے پہلا خیال تو ذہن میں لوگوں کے یہ آتا ہے کہ فلاںمینٹل ہوگیا اس لیے لوگ اگر ذہنی اذیت سے گزر بھی رہے ہیں تو بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ ان پر مینٹل ہونے کا لیبل نہ لگ جائے۔ دس اکتوبر کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ذہنی صحت کا دن منایا گیا۔ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ ضرورت اس پر کام کرنے کی ہے کہ ذہنی بیماری کو بھی بیماری سمجھا جائے۔یہ آگاہی پھیلائی جائے کہ ذہنی بیماری کو بھی بعض اوقات سائکالوجسٹ کے سیشن کے ساتھ ساتھ باقاعدہ دواؤں ضرورت ہوتی ہے۔ ذہنی بیماریوں کے لیے دوائیں سائیکاٹرسٹ تجویز کرتے ہیں۔ ہمارے ’’لائف سٹائل‘‘ کی بدولت حالات یہ ہیں کہ سٹریس ،ہر عمر کے لوگوں میں موجود ہے اور اگر اس کا تدارک نہ کیا جائے تو یہی ذہنی بیماریوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔زندگی کے معاملات میں تھوڑا بہت سٹریس یا اینگزایٹی اب معمول کی بات ہے لیکن اگر بے وجہ اداسی طویل ہو جائے۔بے کیفی کی صورت اتنی ہو کہ زندگی کے پسندیدہ کاموں سے بھی اکتاہٹ محسوس ہو، مزاج میں چڑاچڑاپن غالب آنے لگے اور دل و دماغ پر مسلسل ایک ناقابل بیان کا بوجھ محسوس ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے ۔(ایسی ابتدائی صورتحال کو دواؤں کے بغیر کنٹرول کرنے کے بھی کئی طریقے ہیں جس پر کسی اور کالم میں بات ہوگی) ان حالات میں ذہنی امراض کے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر شرمندہ ہونے اور اسے چھپانے کی قطعی ضرورت نہیں۔۔ میری تجویز ہے کہ سکولوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس موضوع پر آگاہی کے لئے پروگرام ہونے چاہئیں۔ ذہنی طور پر متوازن اور صحت مند انسان زندگی کے چیلنجز کا سامنا پرامید ہو کے کرتا ہے مشکل ترین لمحات میں بھی وہ برداشت کرتا ہے، اپنے جذبات اور ردعمل کی لگامیں کھینچ کے رکھتا ہے۔ ذہنی بیمار شخص کا ردعمل بعض اوقات اتنا خوفناک ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کی جان بھی لے سکتا ہے اور کبھی اپنی جان بھی ختم کرسکتا ہے ۔بعض اوقات مسلسل ذہنی دبائو اور اینگزائٹی جسمانی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہونا بلڈ پریشر کا مدوجزر، شوگر، جوڑوں کے امراض، مسلسل تھکن، معدے کے امراض جنم لیتے ہیں۔ جسمانی بیماریوں میں کم ازکم 50 فیصد کردار ذہنی دبائو اور ڈپریشن کا ہوتا ہے ۔ یہ آگاہی ہمارے ہاں بہت کم ہے۔ بلڈ پریشر ہائی ہو جائے تو عام فزیشن ظاہر ہے بلڈپریشر نارمل کرنے کی دوا دیتا ہے۔ اس کے ماخذ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ بھانت بھانت کے قسموں کے ٹیسٹوں کے باوجود کسی جسمانی بیماری کا پتا نہیں چل رہا تو کسی سائیکاٹرسٹ ملنے میں کوئی حرج نہیں ہوسکتا ہے وہ اس بیماری کا ماخذ جان کر بہتر دوا تجویز کرسکے۔یاد رکھیں ذہنی امراض ایک دو دھاری تلوار کی طرح ہیں۔ ایک طرف جہاں انسانی سوچ سے امید کی روشنی نچوڑ کر ذہن اور زندگی کے توازن میں بگاڑ کرتے ہیں ، وہیں جسمانی عوارض کا باعث بھی بنتے ہیں۔