میں جب محمود الحسن کو آج کل فیس بک پر میگزین کیلئے کیے ہوئے اپنے ایکسکلوسیو انٹرویوز کی تصویریں ماضی کی کھوئی ہوئی یاد کی صورت لگاتے ہوئے دیکھتی ہوں تو دل میں اداسی کی لہر آتی اور ٹھہر جاتی ہے۔ میگزین کے رنگین صفحات سے خود میری کیسی کیسی یادیں وابستہ ہیں۔ میں نے آغاز میگزین صحافت سے کیا تھا۔اردو کا ایک بڑا اخبار تھا جس کے ہفتے میں چھ رنگین صفحات آتے۔ ہر صفحے کا الگ انچارج تھا۔ ہر صفحے کی صحافتی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ میں ہفتہ وار آنے والے بچوں کے دو صفحات کی انچارج تھی ۔ پورا ہفتہ اس صفحے کے لیے منفرد سر گرمیاں ہوتی رہتیں۔ کبھی مشاہیر کے ساتھ گفتگو کی نشستیں ہورہی ہیں۔بچوں کو مختلف اداروں ، فیکٹریوں ،تفریحی مقامات پر لے جا رہا ہے، مطالعاتی دورے کروائے جا رہے ہیں۔ مختلف نامور شخصیات کو اخبار کے فورم ہال میں مدعو کیا جا رہا ہے، ان کے ساتھ بھر پور نشستیں رکھی جارہی ہیں ۔ اس اخبار کا بچوں کا صفحہ بہت عرصے سے بند ہوچکا ہے۔ 92 نیوزکے علاوہ کوئی اردو اخبار اب بچوں کے لیے الگ سے رنگین صفحہ نہیں نکالتا۔ بچے تو خیر کبھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہے سو بچوں کے صفحات بند ہونے پر نہ کہیں ہلچل ہوئی نہ کہیں اعلان ہوا ۔یوں بھی بچے اب ویڈیو گیموں میں اتنے مصروف ہیں کہ مطالعہ ان کے لیے غیر پرکشش سر گرمی ہے۔یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے جس پر بات ہونی چاہیے کہ بچوں کو مطالعہ کی طرف کیسے راغب کریں۔ اتوار کو اخبار کے ساتھ آنے والا رنگین صفحات پر مشتمل میگزین ہماری زندگی میں کیسے کیسے رنگ بکھیرا کرتا تھا۔ اس سے میرے بچپن کی بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔وہ عمر جب اخبار کی خبروں میں دلچسپی نہیں ہوتی تھی صرف اخبار کے رنگین صفحات پر کشش لگا کرتے۔ اتوار کے روز اخبار کا انتظار صبح سے شروع ہوجاتا ۔خانپور میں اخبار قدرے دیر سے آتا تھا۔ جونہی اخبار آتا دوڑ کے اخبار اٹھانا، اس کے اندر سے میگزین نکال کر صفحات پر بکھری جادونگری میں گم ہوجانا۔اے حمید جیسے ادیبوں کو بھی اخبار کے سنڈے میگزین سے ہی پڑھنا شروع کیا۔یہ وہ مشق تھی جو رفتہ رفتہ ہمارے کچے ذہنوں کو اخبار کے دوسرے حصوں کے ساتھ بھی جوڑتی گئی۔ اس دور میں بہت سارے گھروں میں اتوار کا اخبار سنڈے میگزین کے لیے لیا جاتا تھا کیونکہ اس میں گھر کے سب افراد کیلیے تفریحی مواد موجود ہوتا ہے۔پھر میں خود ایک بڑے اخبار کے میگزین کا حصہ بنی تو سنڈے میگزین کے لیے فیچرز اور انٹرویو کیے ۔ میگزین کے درمیانی فیشن صفحات کے لئے کچھ نیا لکھنا ہمیشہ ایک چیلنج لگتا تھا ۔ اخبار کے کمپوزنگ سیکشن میں میگزین کا کام سب سے زیادہ ہوا کرتا تھا ۔ خبروں اور کالموںکے برعکس میگزین میں طویل مضمون، فیچر اور انٹرویوز کا مواد کمپوز ہوتا ۔ میگزین کی صحافت پر زد پڑتی ہے تو اس سے وابستہ شعبوں میں کام کرنے والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ زمانہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو خیر کی خبر ملنا بند ہو چکی ہیں۔2018میں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں تھے۔ تین چار دن کے قیام میں ہم نے وہاں پرنٹ میڈیا کے مختلف بڑے بڑے اداروں کا مطالعاتی دورہ کیا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان کی سولہ صحافی خواتین امریکی ٹی وی چینلز کے وزٹ بھی کرچکی تھیں۔ ٹی وی چینلز کے دفتروں میں جائیں تو ایک خاص طرح کی چکا چوند ،ہرطرف سکرینوں کے ہنگام ، کئی قسم کی بریکنگ نیوز کے آتے جاتے ٹکر ایک عجیب انتشار کی سی کیفیت پیدا کرتے ہیںجبکہ اخبارات کے دفتر میں جاکر واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ ایک خاص قسم کا سکون ہے ۔ایک خاص قسم کی قدامت کہہ لیجئے اور یہی فرق ہمیں ڈیلس کے اخبار کے دفتر میں جاکر بھی محسوس ہوا۔ ہر جگہ یہی بات زیر بحث تھی کہ ڈیجیٹل دور خطرناک ہے اور آخر کب تک پرنٹ میڈیا اپنا اثر بر قرار رکھے گا۔ اس بات کو پانچ برس گزر گئے۔ دنیا بھر میں کئی بڑے اخبارات نے اپنے اخباروں کے کچھ صفحات آن لائن کردیے۔پاکستان میں صورتحال اس سے بھی زیادہ بری ہے ۔ اسی بے مہر موسم میں اخباروں کے سنڈے میگزین کے بچھڑنے کی خبر ملی ہے۔ اخبار پر بربادی یاراں کا یہ بے مہر موسم میرے جیسے ان تمام خواب نگاروں کے لیے تکلیف دہ ہے جنہوں نے معاش سمیت جیون کے سارے خواب چھپے ہوئے حرف و لفظ کی آبیاری میں گزاردیے۔خواب کے بوریے بستر اب لپیٹے جارہے ہیں مگر سفر ابھی باقی ہے سو ایک مسلسل معاشی عدم استحکام ملال کی صورت زندگی کو بوجھل کرتا ہے۔ اس اداسی کا اظہار ہمارے کولیگ محمودالحسن آج کل اپنی فیس بک پوسٹ میں کر رہے ہیں۔ محمودالحسن بظاہر نوجوان صحافی ہیں مگر بقول سعدللہ شاہ کے میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا کے مصداق حقیقت میں کئی قدیم زمانوں اور کلاسیک تخلیق کاروں سے ربط وضبط رکھتے ہیں اور وقت کی دھول میں گم ہوتے ہوئے خزانوں کے ساتھ ان کی وابستگی پرانی ہے۔ پرنٹ سے لے الیکٹرانک میڈیا تک ایسے صاحب ذوق صحافی کم ہیں مگر موجود ہیں۔میں محمود الحسن کو ایسے تمام صاحب ذوق اور کتاب سے جڑے ہوئے صحافیوں کا نمائندہ سمجھ کر یہ سوال اٹھا رہی ہوں کہ پرنٹ صحافت میں موجود ایسے صحافیوں کا مستقبل اس دور میں کیا ہے جب کہ پرنٹ میڈیا میں امکانات سمٹ رہے ہیں اور ڈیجٹل میڈیا کی صورت یو ٹیوب پر الم غلم بہت کچھ ابل رہا ہے مگر ہم جیسے صحافی جو ایک خاص معیار سے نیچے آ کر کام نہیں کرسکتے وہ کہاں کھڑے ہیں اور اپنے آنے والے دنوں کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔ کیا وہ آنے والے وقت کے چیلنجز کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔ اس پر کسی اگلے کالم میں بات ہوگی لیکن فی الوقت تو اس دکھ پر بات کرنی تھی کہ سنڈے میگزین کے بند ہونے سے ایک روایت اور ایک تہذیب کا خاتمہ ہوا ہے اور ہماری نسل کے صحافیوں نے صحافت میں آنے والی اس ہنگامہ خیز تبدیلی کو نہ صرف دیکھا بلکہ اپنے اوپر سہا بھی ہے۔۔ جمال احسانی کا یہ مصرع یاد آتا ہے۔ میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے!!