’’ 12 اپریل 1981ء کو صبح ساڑھے 3 بجے سپرنٹنڈنٹ پولیس اور خفیہ محکمے کے ایک افسر کی قیادت میں 400 پولیس جوانوں نے لاہور میں میرے گھر کو محصور کرلیا۔ انہوں نے ملازموں کو پیٹا اور دروازے توڑ کر گھر کے اندر گھس آئے۔ میری ہمشیرہ جو جگر کے آپریشن کے بعد بستر مرض پر تھی اسے بستر سے گھسیٹ لیا گیا‘ وہ میری والدہ کو کمرے سے باہر گھسیٹ کر لے گئے اور میرے بیڈ روم کے دروازے کو توڑ ڈالا۔ ’’یہ الذوالفقار کا صدر مقام ہے، انہوں نے مجھے گردن سے پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’ہم زیر زمین کمرے میں ذخیرہ کئے ہوئے راکٹ لانچرز‘ بذوکا بندوقیں‘ سب مشین گنیں اور گولیاں ضبط کرنے کے لیے آئے ہیں۔ (فیصل صالح حیات) ’’مس بھٹو اور الذوالفقار کے تعلق پر روشنی ڈالو‘‘ جیل حکام بار بار مجھ سے یہی استفسار کرتے رہے۔ جب میں نے کہا کہ اس نے تو کبھی بھی اس معاملہ میں میرے ساتھ بات نہیں کی نہ ہی طیارے کے اغوا کے سلسلے میں کچھ جانتا تھا تو انہوں نے چمڑے کی بیلٹ سے میری پٹائی شروع کردی اور میرے سر پر بانس کے ڈنڈے مارے۔ میں بہت چھوٹے قد کا آدمی ہوں‘ تین فٹ اونچا اور 48 پونڈ وزن کا۔ انہوں نے مجھے کھیل بنا لیا۔ بھاری ہتھکڑیاں پہنا دیں‘ حکم دیا کہ بازو سر کے اوپر رکھوں۔ میرے بازو کافی چھوٹے ہیں‘ جب میں وزن کے بوجھ سے زمین پر گر گیا تو انہوں نے اپنے پائوں میرے جسم پر رکھ دیئے اور زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ وہ مجھے پیٹ کے اوپر والی جلد سے اٹھا لیتے اور زمین پر پٹخ دیتے۔ انہوں نے مجھے ایک پائوں سے پکڑا اور قید خانے کی اونچی دیواروں پر لٹکا دیا۔ ایک پسندیدہ ظلم یہ تھا کہ مجھے اپنے سامنے بالکل ننگا کھڑا کرلیتے‘ میری ٹانگوں کے درمیان ایک بانس کا ڈنڈا لہراتے اور مجھے اس پر لٹکنے کو کہتے۔ میں منہ کے بل آگے کوگر جاتا۔ وہ مجھے قابل نفرت کہتے‘ ٹھڈے مارتے‘ میری کمر، ٹانگوں اور ہاتھوں کے زخموں میں جراثیم سرایت کر گئے۔ (قاضی سلطان محمود) ’’سال کے گرم ترین موسم میں ہم پانچ ہفتوں تک لاہور قلعہ میں رہیں۔ دھوپ کی تمازت بے رحم تھی۔ تین مرتبہ وہ ہمیں اپنے مخصوص کمرے میں لے گئے۔ ہماری کلائیوں کے گرد گیلے اسفنج باندھ دیئے گئے اور ان میں سے بجلی کی تاریں گزاری گئیں۔ ہر چند سیکنڈ بعد وہ ہمیں بجلی کے جھٹکے دیتے۔ ایک پھر ایک اور پھر ایک اور۔ ہمارے بدن مڑ گئے اور سخت ہوتے گئے۔ میرے ٹوٹے ہوئے ہاتھ پر پٹی لپٹی تھی اور وہ حساس تھا۔ میں صدمے سے چیخ پڑی۔ ’’ہم تمہاری جگہ اذیت دینے کے لیے تمہارے والد کو لے آئیں گے‘‘ انہوں نے دھمکی دی۔ ’’تمہاری بیٹی کو لے آئیں گے‘‘ یہ جھٹکے متواتر دو گھنٹے تک دیئے جاتے رہے۔ (ناصرہ رانا) ’’جیل سپرنٹنڈنٹ نے میرا حوصلہ پست کرنے کے لیے نئی چال چلنا شروع کی۔ ’’تمہاری پارٹی کے عہدہ دار تمہیں چھوڑ رہے ہیں۔‘‘ اس نے مجھے بتایا اور پی پی پی کے اراکین کی مخالف پارٹیوں کے اراکین سے ملاقاتوں کی خبریں سنانا شروع کردیں۔ بلکہ حکومتی شخصیات سے بھی رابطے کی۔‘‘ وہ تمام تمہیں چھوڑ رہے ہیں۔ تم اپنی زندگی یہاں کیوں ضائع کر رہی ہو’ اگر تم سیاست سے کنارہ کشی کرلو تو تمہاری تمام مصیبتیں ختم ہو جائیں گی۔‘‘ (بے نظیر بھٹو) ’’اکتوبر میں دو ہزار وکلا کراچی میں شہری آزادیوں کی بحالی کے مطالبہ کے لیے جمع ہوئے۔ کانفرنس کے منتظمین گرفتار کرلیے گئے اور انہیں ایک ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ دو ہفتوں بعد مسٹر حفیظ لاکھو جو میرے والد کے وکلا میں سے ایک تھے‘ کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیا۔ دسمبر میں اخبارات میں خبر پڑھی کہ ضیا صدر ریگن اور کانگرس کے اراکین سے ملاقاتوں کے لیے واشنگٹن میں ہے۔ صرف دسمبر میں پاکستان میں 20 سے زائد سیاسی قیدیوں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔‘‘ (بے نظیر بھٹو۔دختر مشرق) دختر مشرق میں لکھے ان واقعات کو کئی روز سے پڑھ رہا ہوں۔ کتابیں نہ لکھی جائیں تو انسانوں کے سینے میں سانس اور گزرے وقت کی اذیت ایک ساتھ نہ رہ پائیں۔ کاغذ بے جان ہیں سو ان پر لکھا ہوا دکھ دم نہیں توڑتا۔ یہ واقعات کچھ لوگوں کے لیے سبق ہیں کہ سیاست میں اپنا مقام زندہ رکھنے کے لیے ایسی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ایک سبق ان حکومتوں کے لیے جو کچھ وقت کی طاقت اور اقتدار کے زور پر مخالفین کو کچلنا چاہتی ہیں۔ دوسرا سبق ان جماعتوں کے لیے ہے جو جمہوری جدوجہد کوصرف مطالبہ کرنے کی شکل میں دیکھتی ہیں۔ جمہوریت آئین کے مطابق شہری حقوق کی مکمل بحالی کا نام بھی ہے۔ کیا کسی نے اس امر کا تجزیہ کیا کہ وقفے وقفے سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے کیوں اتر جاتی ہے۔ صرف عسکری قیادت ذمہ دار نہیں۔ پاکستان اپنے مخصوص حالات کے باعث صرف سیاست دانوں پر انحصار نہیں کر پا رہا۔ سیاست دانوں نے بھی اپنی استعداد بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ عمران خان کو اقتدار اس لیے ملا کہ لوگ پیپلزپارٹی‘ نوازلیگ اور ان کی اتحادی جماعتوں سے بیزار ہیں۔ عمران خان کو بیس اکیس برس کی سیاست میں اپنی ٹیم بنا لینی چاہیے تھی۔ اقتدار ملا تو بے شمار محکموں کی سربراہی‘ حکومتی ذمہ داریاں اور اہم کاموں کے لیے ان کے پاس لوگ ہی نہیں تھے۔ ہمسائے میں عام آدمی پارٹی ابھری ہے۔ عوام کا ووٹ تھا۔ ایک پروگرام ترتیب دے رکھا تھا کہ اقتدار میں آئے تو یہ نافذ کریں گے۔ دہلی کے بعد پنجاب میں بھی حکومت بنا لی۔ گرفت ایسی مضبوط کہ سیدھا لوگوں کی دہلیز پر سرکار نظر آتی ہے۔ عمران خان یورپ کے مہذب ملکوں کی تاریخ بیان کرتے رہتے ہیں۔۔ یہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل ہے۔ عمران خان اور ان کے کچھ ساتھی بیرونی ممالک سے رابطے کر رہے ہیں ، بتایا جا رہا ہے کہ مختلف ملکوں کے سامنے ریاست کے ناکام ہونے کی بات رکھی جا رہی ہے ، مدد کی درخواست کی جا رہی ہے ۔ ایسا ہے تو یہ ایک اور غلطی ہو گی۔سیاست ریاست سے نہیں ہوتی‘ اس کا مقصد عام آدمی کی زندگی آسان بنانا اور ملک میں استحکام لانا ہے۔پارٹیاں سخت آزمائش سے گزر کر سیکھتی ہیں ۔ پی ٹی آئی کو یہ سیکھنا چاہیے کہ ریاست سیاست سے بہت برتر ہے ،ایسے ہی جیسے بے نظیر بھٹو نے سیکھا ۔