تائیوان کے نائب صدر ولیم لائی امریکہ کے ایک حساس دورے پر روانہ ہو ئے ہیں۔ ولیم لائی پیراگوئے کے نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی غرض سے باضابطہ طور پر پیراگوئے جانے اور واپس آنے کے لیے امریکہ میں صرف ٹرانزٹ اسٹاپ کے لیے رک رہے ہیں، لیکن چین نے غصے کے ساتھ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اِس عمل کی سخت مذمت کی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ تائیوان کے جزیرے کے گرد مزید چینی فوجی سرگرمیاں شروع ہو سکتی ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ولیم لائی، جنوری 2024 میں ہونے والے انتخابات میں تائیوان کے صدر بننے کے لیے سب سے مضبوط امیدوار تصور کیے جاتے ہیں۔ اِس سے قبل گزشتہ سال اَمریکی ایوان نمائندگان کی اس وقت کی سپیکر نینسی پیلوسی نے چین کی دھمکیوں کے باوجود کہ اِس دورہ کی وجہ سے اَمریکہ کو کیا قیمت ادا کرنا پڑیگی 3 اگست 2022 کو تائیوان کا دورہ کیا جس کے فوری ردِعمل کے طور پر چین نے نینسی پیلوسی اور ان کے قریبی خاندان پر غیر متعینہ پابندیوں کا اعلان کیا البتہ ان پابندیوں کے بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کیا گیا۔ تاہم یہ پابندیاں عام طور پر علامتی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ سپیکر نینسی پیلوسی کے 3 اگست 2022 کو تائیوان کے دورہ کے ردِعمل میں چین نے آبنائے تائیوان میں اس وقت تک کی سب سے بڑی فوجی مشقیں کی تھیں جسے "لائیو فائر ڈرلز" کا نام دیا گیا۔ اِن مشقوں میں بیلسٹک میزائل داغنا اور لڑاکا طیاروں کی تعیناتی شامل تھی۔ چینی وزارت دفاع کے مطابق اِس دوران متعدد جنگی جہازوں اور لڑاکا طیاروں نے آبنائے تائیوان کی درمیانی لائن کو بھی عبور کیا۔ آبنائے تائیوان کے گہرے پانیوں میں چار دن تک جاری رہنے والی اِن مشقوں کے دوران چین اور تائیوان کے جنگی جہازوں کے مابین "بلی اور چوہے کا کھیل" جاری رہا تھا۔ چین کا مؤقف ہے کہ تائیوان اس کا علاقہ ہے اور اِسے اَپنے کنٹرول میں لانے کے لیے طاقت کے استعمال کا اِظہار بھی کرتا رہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق، 1949 میں خانہ جنگی اور فریقین کی تقسیم کے بعد اور 73 سالوں سے چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے، نظام تعلیم اور مکمل طور پر ریاست کے زیر کنٹرول میڈیا کی بدولت اب تائیوان کو کنٹرول میں لانے کے لیے طاقت کے استعمال کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف جزیرہ تائیوان میں مغربی طرز کا جمہوری نظامِ حکومت رائج ہے اور تائیوان آزادی کی اِس موجودہ کیفیت کو برقرار رکھنے کا حامی ہے اور چین کے اِن مطالبات کو مسترد کرتا ہے کہ تائیوان کمیونسٹ کنٹرول کے تحت چین کے ساتھ متحد ہو جائے۔ جزیرہ تائیوان کا دعویٰ ہے کہ وہ خودمختار چینی علاقہ ہے اورعالمی برادری اس کے اِس حق کو تسلیم کرے۔ تائیوان کے نائب صدر مسٹر لائی کے پیراگوئے کے موجودہ دورے کو اِس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تائیوان کے نائب صدر ولیم لائی نے اِس دورے کا مقصد اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ "پیراگوئے کے دورے کا مقصد نہ صرف اِس ملک کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کے لیے ہے بلکہ اِس دورے کو دوسرے ممالک کے ساتھ خود اعتمادی کے تبادلے اور ہم خیال شراکت داروں کے وفود سے ملاقات کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا"۔ پیراگوئے جنوبی امریکہ میں ایک خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے۔ اس کی سرحد جنوب اور جنوب مغرب میں ارجنٹائن، مشرق اور شمال مشرق میں برازیل اور شمال مغرب میں بولیویا سے ملتی ہے۔ اگرچہ جنوبی امریکہ کے صرف دو خشکی سے گھرے ہوئے ممالک میں سے ایک پیراگوئے ہے (بولیویا دوسرا ہے)، پیراگوئے میں دو دریاؤں دریائے پیراگوئے اور دریائے پَرانا پر بندرگاہیں ہیں۔ جو Paraguay Paranáآبی گزرگاہوں کے ذریعے بحر اوقیانوس سے جڑی ہوئی ہیں۔ اِس دورہ کے مقاصد کے پس منظر میں ایک طرف چین کے اَمریکہ کے ساتھ تعلقات میں مزید تناؤ کا خدشہ ہے دوسری طرف تائیوان کی مختلف ممالک باالخصوص برِ اعظم جنوبی اَمریکہ کے ملکوں کے ساتھ روابط بڑھانے کی کوششیں چین اور جنوبی اَمریکہ کے ملکوں کے باہمی تعلقات پر بھی اَثرانداز ہوسکتی ہیں۔ یاد رہے کہ چین نے آٹھ مخصوص اقدامات پر امریکہ کے ساتھ تعاون کو روک دیا ہے، جن میں موسمیاتی تبدیلی، فوجی مسائل، انسداد منشیات کا کام، سرحد پار جرائم کی روک تھام اور غیر دستاویزی تارکین وطن کی واپسی پر بات چیت شامل ہے۔ سپیکر نینسی پیلوسی کا 3 اگست 2022 کو تائیون کا متنازعہ دورہ 1997ء کے بعد سے کسی بھی اعلیٰ سطحی امریکی اہلکار کا پہلا دورہ تھا اور اِس دورے نے چین اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو ایک نئی نچلی سطح پر پہنچا دیا تھا۔ اَلبتہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران مختلف سینیئر امریکی عہدیداروں نے چین کے دورے کیے ہیں جن میں اَمریکی سیکرٹری سٹیٹ انٹونی بلنکن کا 12-13 جون 2023 کو دو روزہ دورہ شامل ہے جس کا طویل عرصے سے اِنتظار کیا جارہا تھا۔ اِس کے علاوہ امریکی سیکرٹری خزانہ جینٹ ییلن اور امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے موسمیاتی تبدیلی جان کیری نے بھی حال مہینوں کے دوران چین کے دورے کیے ہیں۔ اِن دوروں کا مقصد بظاہر یہی نظرآتا ہے کہ گزشتہ 40 سالوں میں دونوں فریقوں کے درمیان پیدا ہونے والے اِعتماد کو بڑھتی ہوئی کشیدگی کی موجودگی میں بکھرنے سے بچایا جائے۔ تاہم میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق، امکان یہی ہے کہ چین اگلے ہفتے تائیوان کے قریب فوجی مشقیں شروع کرے گا جبکہ گزشتہ ہفتے ، تائیوان کے پانیوں اور فضائی حدود کے ارد گرد چینی فوج کی دراندازی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق چین اور اَمریکہ کے مابین تائیوان، یا جنوبی بحیرہ چین کے مزید جنوب میں فوجی تصادم کے علاقائی اور عالمی تجارت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 300 بلین ڈالر مالیت کی تجارت اِس سمندری گزرگاہ سے ہوتی ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا کا بہت زیادہ انحصار سمندر کے ذریعے تیل اور گیس کی ترسیل پر ہے۔ ویتنام، ملائیشیا، اِنڈونیشیا اور فلپائن کی برآمدات بھی شپنگ میں رکاوٹوں، بیمہ کی قیمتوں میں اضافے اور خام مال کی آمدورفت میں رکاوٹوں سے بہت زیادہ متاثر ہوں گی جس کا عالمی معیشت پر واضح اثر پڑے گا جو پہلے ہی یوکرائن کی جنگ اور COVID-19 کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔ اِس صورتحال میں تائیوان، امریکہ اور چین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کوئی بھی اَیسا قدم اٹھانے سے گریز کریں جس سے علاقائی امن اور اِستحکام خطرے میں پڑجائے۔ کیونکہ کسی بھی غلط تخمینہ لگانے اور جزباتی طرزِعمل اپنانے کے نتیجے میں ایک اَیسی جنگ چھڑسکتی ہے جو سب کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔